امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’ ہم نے افغان فوج کو سب کچھ دیا مگر انہیں لڑنے کا عزم اور حوصلہ نہ دے سکے۔‘ دیکھا جائے تو کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ 15 اگست کو طالبان نے ایسے وقت میں کابل پر اپنا جھنڈا لہرایا، جب پڑوس میں بھارتی وزیراعظم مودی بلندو بالا دعوے کررہے تھے۔ طالبان کی بجلی کی رفتار سے کابل کی جانب پیش قدمی اور اشرف غنی کا فرار ہونا بہت سارے تجزیہ کاروں کو چونکا گیا ہے۔
امریکی صدر نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے خفیہ اداروں کی رپورٹس یہی بتارہی تھیں کہ طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے اندازوں کے برعکس طالبان کی برق رفتاری سے کابل کی جانب پیش قدمی حیران کن ثابت ہوئی۔ اسی لیے امریکا اور کئی دیگر یورپی ممالک کو اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو کابل سے ہنگامی طور پر نکالنے کے لیے افواج کی ضرورت پڑی۔
افغان فوج پر اخراجات
گزشتہ 20 برسوں کے دوران امریکا نے افغان فوج، پولیس، فضائیہ اور اسپیشل فورسز کی تربیت، سازو سامان اور ترقی کے لیے 83بلین ڈالرز سے زیادہ خرچ کیے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان نیشنل ڈیفنس سیکیورٹی فورسز، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
افغان فوج میں بدعنوانی عروج پر
بین الاقوامی رپورٹس کئی بار اس جانب اشارہ کرچکی تھیں کہ افغان وزارت دفاع اور داخلہ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہورہی ہیں۔ جنگی سازو سامان، گولہ بارود اور خوراک کی ترسیل میں ہیرا پھیری کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ گولہ بارود اور دیگر سازو سامان بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہا تھا۔ کچھ افغان کمانڈروں نے "گھوسٹ سپاہیوں ” کی تنخواہوں کے لیے فنڈز کی درخواستیں جمع کروا کر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا۔ کچھ ایسے بھی اہلکار تھے جنہیں بغیر تنخواہ کے رکھا گیا۔ جنہیں گھر والوں کی خبر گیری تک کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ ایسے بھی فوجی تھے، جن کی تنخواہ انتہائی کم تھی۔
افغان فوج کے حوصلے پست کیوں ہوتے گئے؟
بدعنوانی، اقربا پروری، ناانصافی اور زیادتیوں نے افغان فوج کی صفوں میں اتفاق اور اتحاد کا فقدان تیزی سے پھیلایا۔ وہ فوجی جنہیں کم تنخواہ یا ماہانہ وظیفہ نہیں ملتا تھا، وہ اپنے کمانڈرز کی شاہانہ طرز زندگی دیکھ کر احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہوتے گئے۔ سنییر فوجی قیادت کے احترام میں رفتہ رفتہ کمی آتی گئی۔ اسی لیے انہوں نے میدان میں جانے سے پہلے روپوش ہونے یا پھر ہتھیار ڈال کر اپنی جان بچانے کو ترجیح دی۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات اور تنازعات بھی اس پسپائی کا باعث بنے۔
فوج میں سیاسی مداخلت
وزارت داخلہ اور وزیر دفاع کی جانب سے گورنرز اور پولیس سربراہوں سمیت کئی اعلیٰ دفاعی عہدوں پر مسلسل تبدیلیاں بھی افغان فوج کی کارکردگی کو متاثر کرتی رہی۔ بدقسمتی سے اشرف غنی نے فوج کی کمان اور قیادت میں تسلسل نہیں رکھا۔ ملٹری چیف آف اسٹاف تنظیم اہم مہرہ ہوتا ہے اگر اسے مسلسل تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کے منفی نتائج آتے ہیں۔
امریکی انخلا اور افغانستان بھر میں طالبان کے حملے کے دوران اشرف غنی نے اپنے فوجی رہنماؤں کو باقاعدگی سے تبدیل کیا۔ مثال کے طور پر، غنی نے افغان فوج کا سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ولی محمد احمد زئی کو جون میں بنایا اور پھر ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی کے اسپیشل آپریشنز کمانڈر، میجر جنرل ہیبت اللہ علی زئی کو یہ عہدہ حال ہی میں دے دیا گیا۔ اسی طرح اشرف غنی نے اپنے وزرائے داخلہ کو دو بار تبدیل کیا اور حالیہ مہینوں میں اپنے وزیر دفاع اور چھ کور کمانڈروں میں ردوبدل کیا۔
طالبان کی اسمارٹ فوجی حکمت عملی
طالبان نے بڑی سرحدی گزرگاہوں، اہم شاہراہوں اور بڑے شہروں کا محاصرہ کرکے اسمارٹ فوجی حکمت عملی اپنائی کہ کابل کی کمک اور سامان بھیجنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیایوں بہت سے فوجی یونٹس ملک کے باقی حصوں سے منقطع ہو گئے تھے۔
افغان فوج کو کبھی خود پر اعتماد نہ رہا
برسوں کی تربیت اور اربوں ڈالر مالیت کا سامان حاصل کرنے کے باوجود افغان نیشنل ڈیفنس سیکیورٹی فورسز نے کبھی بھی اپنے طور پر کھڑے ہونے کی صلاحیت کی کوشش ہی نہیں کی۔ درحقیقت یہ شہری علاقوں کی حفاظت کے لیے مکمل طور پر امریکی اور نیٹو فوجیوں پر انحصار کرتے رہے۔ ایک بار جب یہ افواج پیچھے ہٹنا شروع ہوگئیں، طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی سے چھپی ہوئی کمزوریاں اور نااہلی تیزی سے منظر عام پر آ گئیں۔
ایسے میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اصل طاقت صرف اور صرف حوصلے اور عزم کی ہے اور بدقسمتی سے امریکا سمیت کئی غیر ملکی طاقتیں جو افغانستان میں تھیں، وہ یہ سب کچھ افغان فوج کو دینے سے قاصر رہیں۔ جس کا اعتراف اب صدر بائیڈن بھی کررہے ہیں۔
Discussion about this post