سائرن بجاتی ایمبولینس جب اسپتال کے مرکزی دروازے پر رکی اور ڈاکٹر سیمیں جمالی کے علم میں آیا ہے کہ شہر میں ہونے والے بم دھماکے کے زخمی آئے ہیں تو وہ تیر کی طرح اپنے دفتر سے نکلیں اور ایمرجنسی کی جانب بڑھیں۔ ذکر ہے فروری سال 2010کا جب کراچی شہر میں آئے روز بم دھماکے، اندھا دھند فائرنگ اور دیگر جرائم کے واقعات عروج پر تھے۔ شہر کے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی کو ہر ممکن اقدامات کے لیے تیار رکھا جاتا۔ نجانے کب کوئی علاج کے لیے آجائے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے شعبہ حادثات کی جانب بڑھ ہی رہی تھیں کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا۔ ہر جانب ہڑبونگ مچ گئی۔ چیخ و پکار سے کان پڑے آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
ڈاکٹرسیمی جمالی اگر کچھ اور برق رفتاری کا مظاہرہ کرتیں تو ممکن تھا کہ وہ بھی اس بم دھماکے کا شکار ہوجاتیں لیکن انہوں نے ابھی موت کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا۔ حواس پر قابو پا کر وہ نئی امنگ، جذبے اور جوش کے ساتھ اب جہاں اُن مریضوں کی نگہداشت کرنے میں مصروف تھیں، جو شہر میں ہونے والے بم دھماکے کی وجہ سے اسپتال آئے تھے، وہیں اُن کی بھی جو شعبہ حادثات کے مرکزی دروازے پر تازہ بم دھماکے کا نشانہ بنے تھے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی اُس واقعے کو اپنی زندگی کاسب سے خوف ناک واقعہ قرار دیتی تھیں۔
زندگی کے پہلے بم دھماکے کے مریضوں کا سامنا
یہ جون 2002کی بات ہے جب جناح اسپتال میں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے موک (ایکسائز) کرائی جارہی تھی۔ اسی دوران اسپتال کے مرکزی دروازے پر ایک کے بعد ایک ایمبولینس آکر روکنا شروع ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ کراچی میں میریٹ ہوٹل کے باہر خوف ناک دھماکہ ہوا ہے، جس کے زخمی اور ہلاک افراد کو اسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق یہ اُن کی زندگی کا پہلا ایسا واقعہ تھا، جس میں انہوں نے کسی بم دھماکے میں اتنی بڑی تعداد میں متاثرین کو دیکھا اور پھر وہ گھبرائے بغیر زخمیوں کی ہنگامی بنیادوں پر طبی امدادمیں بھی مصروف ہوئیں۔
ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ اور پہلے ہی دن بیمار
ڈاکٹر سیمی جمالی اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کا رشتہ تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی پہلی ذمے داری ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں بحیثیت جونیئر آفیسر کے تھی۔ اُس زمانے میں موجودہ اسپتال صرف جناح اسپتال تھا جو انتہائی مخدوش حالت میں تھا، جہاں غریب اور ضرورت مند مریض ہی آتے اور بعض اوقات ایک دن میں سو سو مریضوں کو دیکھنا پڑتا ۔ کم سہولیات کے باوجود ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ مریضوں کا علاج بہتر سے بہتر کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سیمی جمالی اپنی ڈیوٹی کے پہلے ہی دن گھر لوٹیں تو بیمار پڑگئیں اور ابتدا میں انہیں اپنی یہ جاب بری لگنے لگی۔
فیس بند ہونے کے خوف نے ڈاکٹر بنادیا
ڈاکٹر سیمی جمالی لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ 32 برس کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گئیں۔ والد صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اسی لیے بیشتر اوقات مختلف شہروں میں تبادلے ہوتے رہتے۔ اسی بنا پر ان تین بہنوں کی پرورش نانا اور نانی نے کی۔ ڈاکٹر سیمی جمالی میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ ڈاکٹرسیمیی جمالی ابتدا میں ٹیچر بننا چاہتی تھیں لیکن غالباً والدہ کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کے لیے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، ساتھ ہی یہ سوچ کر بھی اس شعبے کی جانب آئیں کہ اس ملک نے انہیں بہت کچھ دیا ہے اب ضرورت ہے یہاں کی عوام کی خدمت کی جائے۔ جبھی دل لگا کر پڑھا ، کیونکہ نانی صاحبہ نے بول دیا تھا کہ اگر کسی بھی کلاس میں فیل ہوئیں تو فیس بند کردیں گی۔ نواب شاہ میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف اسپتالوں میں ہاؤس جاب کی لیکن والد کی خواہش تھی کہ بیٹی کوئی سرکاری نوکری کرے، جبھی جناح اسپتال میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔
جب گولیوں نے دفتر چھلنی چھلنی کردیا
زیادہ پرانا واقعہ نہیں، 22دسمبر 2012کو شہر میں دو گروپس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جس کے زخمی کو رکشہ میں ڈال کر ایمرجنسی کے اندر لایا گیا۔ ابھی پیرا میڈیکل اسٹاف بجلی کی پھرتی سے زخمی کی نگہداشت ہی کررہا تھا کہ مخالف گروپ اسلحے سمیت ایمرجنسی میں پہنچ گیا، جس نے زخموں سے لہولہان شخص کو ڈنڈوں سے مارا، اس سے بھی جی نہ بھرا تو اس قدر اندھا دھند فائرنگ کی کہ وہاں موجود افراد اور عملے نے جان بچانے میں ہی عافیت سمجھی۔ یہ فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا دفتر بری طرح چھلنی ہوگیا۔ جبکہ ایمرجنسی کی دیواریں خون سے لپ پت ہوچکی تھیں۔ اس واقعے نے سبھی کو لرزہ کر رکھ دیا تھا۔
جونیر آفیسر سے ایگزیکٹوڈائریکڑ بننے کا سفر
ڈاکٹر سیمی جمالی نے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے مختلف عہدوں پر ذمے داری نبھائی۔ انچارچ بھی رہیں اور پھر 2016میں انہیں نگراں ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنایا گیا جس کے بعد ان کو باقاعدہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دیا گیا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اس سفر کے دوران انہوں نے کئی دل خراش واقعات کا سامنا کیا۔ انہیں یاد تھا کہ ایک بار شہر میں بم دھماکوں کے مریضوں کی دیکھ بھال میں وہ گھر اس قدر تاخیر سے پہنچیں کہ ان کے بیمار بچے کی حالت اور بگڑ گئی۔ اسے الٹی اور ڈائریا تک ہوگیا۔ درحقیقت کراچی کے شہریوں کی خدمت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نجی زندگی کو ایک جانب رکھ دیا تھا۔
ہیٹ اسٹروکس میں کراچی والوں کی مدد
کوئی 6سال پہلے جب کراچی میں سورج نے اپنی تباہ کاریاں دکھائیں تو ہر جانب کہرام مچ گیا۔ ہیٹ اسٹروکس کا شکار مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ اسپتال میں صرف4دن میں 20ہزار سے زائد ہیٹ اسٹروکس کے مریض آئے، جن میں کچھ اسپتال میں چند گھنٹوں زندہ رہتے اور چل بستے ۔ رمضان میں ہونے والی اس خوف ناک آفت کے دوران جہاں صوبائی حکومت نے اسپتال میں علاج معالجے کے لیے ہر ممکن تعاون کیا، وہیں کراچی کے مخیر حضرات بھی نمایاں رہے۔جو ہر لمحے ان مریضوں کی مدد کے لیے آگے رہے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق کراچی والوں کا یہ جذبہ ناقابل بیان ہے۔ وہ اس بات کابھی اعتراف کرتیں کہ جب اسپتال کے باہر دھماکہ ہوا تھا تو سندھ حکومت اور مخیر حضرات نے تباہ حال ایمرجنسی کی ازسر نو تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا۔
صحافیوں کے چھبتے سوالات پر خندہ پیشانی
کراچی میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو، حادثہ یا پھر کوئی اور آفت، مریض جناح اسپتال پہنچتے ہیں تو صحافیوں کے لیے مصدقہ اطلاعات کا ذریعہ ڈاکٹر سیمی جمالی ہی رہیں۔ جو ان کے کٹھن، کاٹ دار اور چبھتے ہوئے سوالات کا جواب انتہائی خندہ پیشانی سے دینے کی عادی رہیں۔یہی نہیں مریضوں کی تسلی تشفی کے لیے بھی ان کا رویہ ہمیشہ یادگا ر رہا ۔
ساتھی اسٹاف کے لیے مثال
اسپتال کا بیشتر پیر امیڈیکل اسٹاف ان کے خوشگوار اور دوستانہ رویے سے انہیں آئیڈل مانتا ہے۔ وہ دوسرے ڈاکٹرز اور عملے کے لیے مثال سے کم نہیں، کیونکہ آندھی آئے یا طوفان وہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال میں موجود ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق وہ چاہتی ہیں کہ جب تک زندہ رہیں کام کریں۔ گو کہ انہیں آنت کا کینسر بھی تھا لیکن اس کے باوجود ان کے چٹان جیسے حوصلے اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ انہوں نے تو برین ہیمبرج کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور روبہ صحت ہو کر پھر انسانیت کی خدمت میں جت گئیں۔
پاکستانی ہونے پر فخر
ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہونے پر فخر ہے، کبھی بھی دل نہیں چاہا کہ کسی اور ملک منتقل ہوجاؤں، جبکہ پیش کشیں بے شمار ہوئیں۔ حکومت نے ان کی شاندار اور ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا ۔ صنف نازک کو پیغام دیتیں کہ اگر وہ کوئی خواب دیکھیں تو اس کو پورا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ لگ بھگ 33برس سے سندھ کے سب سے بڑی سرکاری اسپتال کو اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال بنانے میں دن و رات ایک کرنے والی ڈاکٹر سیمی جمالی اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئیں اور پھر 27 مئی 2023 کو کینسر کی بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کرگئی لیکن ۔۔پیچھے چھوڑ گئی ہیں اپنے اسٹاف کے لیے انسانیت کی خدمت کا درس
Discussion about this post