افغانستان میں طالبان کے آتے ہی ہم جنس پرستوں پر خوف کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں بے دردی سے قتل کردیا جائے گا۔
غیر ملکی میڈیا کی ایک رپورٹ میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود ہم جنس پرست طالبان کی آمد کو اپنے لیے خوف ناک خواب سے تعبیر کرتے ہیں۔ 37 برس کے ایک ہم جنس پرست افغان باشندے نے غیر ملکی میڈیا کے نمائندے کو بذریعہ فون کرکے بتایا کہ اسے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ کوئی برا خواب دیکھ رہا ہے اور کوئی اسے جگا کر کہے گا یہ سب سچ نہیں۔‘
متعلقہ افغان ہم جنس پرست کے مطابق کابل میں ہم جنس پرستوں کی کمیونٹی ہے جو ہر ویک اینڈ پر رقص اور گیتوں کا خفیہ اہتمام بھی کرتی ہیں۔ لیکن طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ متعلقہ افغان باشندے اپنے ’بوائے فرینڈ‘ سے ملنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کو ذرا سا بھی شک ہوا تو وہ ہمیں سزائے موت دینے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
ایک اور ہم جنس پرست نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ اسے بس یہ خوف ستاتا ہے کہ پتا نہیں وہ اپنے ساتھی کو دوبارہ دیکھ بھی پائے گا کہ نہیں۔ اس کے مطابق طالبان شرعی قوانین پر سختی کے ساتھ عمل کرائیں گے، جس کا صاف مطلب ہے کہ ہم جنس پرستوں کے پاس صرف سزائے موت کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ اس حوالے سے وہ جرمن اخبار کی اُس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان، ہم جنس پرستوں کو سنگسار کرنے کی سزا دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
باہر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
افغانستان میں موجود ہم جنس پرستوں کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان آئے ہیں انہوں نے گھر سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ ایک اور ہم جنس پرست کے مطابق یہ نہیں کہ افغانستان میں ہم جنس پرستوں کو کھلی آزادی حاصل رہی ہے، ان کے لیے مخصوص سزائیں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی اور اہم سزائے موت ہے لیکن سال 2001 کے بعد سے اس کا اطلاق نہیں ہوا۔مگر اب لگ یہی رہا ہے کہ یہ سزا اب عام ہوجائے گی۔
ہم جنس پرستوں کے حقوق
ہم جنس پرستوں کے حقوق کی وکالت کرنے والے نعمت سادات کابل میں امریکن یونیورسٹی آف افغانستان میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ جن کو ہم جنس پرستوں کی حمایت اور تحریک کے بعد موت کی دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف فتوے بھی جاری ہوئے۔
جبھی 2013میں انہوں نے امریکا میں جلا وطنی اختیار کی۔ ان کے مطابق انہیں کئی افغان ہم جنس پرستوں کے پیغامات مل رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ ملک سے کسی طرح نکل کر کہیں اور سیٹ ہوجائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی آمد سے پہلے افغانستان میں چوری چھپے ہم جنس پرستی کے مختلف گروپس خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کئی جان سے مارنے کی دھمکیوں پر ملک چھوڑ بھی گئے ہیں۔ اس وقت بھی یہ صورت حال ہے کہ بیشتر افغان ہم جنس پرست جرمنی، فرانس یا پھر کینیڈا میں پناہ لینے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
Discussion about this post