طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے ۔ طالبان قیادت اور مقامی سیاست دانوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ ملک چلانے کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا ، اسی پر سبھی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔ مگر دوسری جانب افغان باشندے عجیب سی بے چینی اور پریشانی کا شکار ہیں ۔ غیر یقینی صورتحال ایسی ہے کہ ہر ایک کو اپنے مستقبل کی فکر ہورہی ہے ۔ کاروباری مراکز کھل تو گئے ہیں لیکن اب بھی گاہکوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے ، جبھی ہر ایک کو یہ فکر ستا رہی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا حصول کیسے اور کس قدر ممکن ہوگا ۔
روزگار کی تلاش
ہر کوئی روزگار کی تلاش میں در بدر بھٹک رہا ہے ۔ بینکس اب بھی بند ہیں اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ ادھر کابل کے ہوائی اڈے پر عوام کا جم غفیر ہے جو کسی طرح ملک سے باہر جانے کے لیے پر تول رہا ہے ۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں خوراک کے مسائل سر اٹھانا شروع ہوچکے ہیں ۔ افغانستان جہاں پہلے ہی کمزور معیشت تھی ، اب موجودہ بحران کے بعد کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا اب کیا ہوگا ۔ عام طور پر افغان باشندے روزگار کی تلاش میں ماضی میں پاکستان کا رخ کرتے رہے ہیں ، تو یہاں یہ سوال شدت سے گردش میں ہے کہ اس بار اس بڑے بحران کی وجہ سے کہیں پاکستان پر افغان باشندوں کا بوجھ کچھ اور زیادہ تو نہیں بڑھ جائے گا ؟
سرکاری ملازمین مزید بد حالی کا شکار
ایک پولیس اہلکار نے غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہ لگ بھگ 260 ڈالر ماہانہ کی تنخواہ سے محروم ہوچکا ہے ۔ بیوی اور چار بچوں کی کفالت کیسے کرے ، یہی سوچ سوچ کر پریشان ہے ۔
ایک اور سرکاری ملازم کا شکوہ ہے کہ افغانستان کی شورش شدہ صورت حال نے 3 مہینوں کے دوران اسے مالی طور پر کنگال کرکے رکھ دیا ہے ۔ مکان کا کرایہ بھرنے سے قاصر ہیں اور صورت حال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ بیوی کی انگوٹھی اور بالیاں بیچ کر پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ صرافہ مارکیٹ تک بند ہے اور کوئی خریدار بھی نہیں ملا ۔
افغان کرنسی بے قدری کا شکار
افغان کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں بدترین سطح پر گری ۔ جبھی کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ آٹے ، تیل اور چاول جیسے بنیادی کھانے کی چیزوں کی قیمتوں میں کچھ دنوں میں 10 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور ، بینک بند ہونے کے باعث بہت سے لوگ اپنی بچت تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ویسٹرن یونین کے دفاتر بھی بند ہونے سے بیرون ملک سے ترسیلات زر بھی نہیں آرہیں ۔ کچھ دکانیں کھلی ہیں لیکن بازار خالی ہیں۔
پروازوں کی معطلی
بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے پروازوں کی معطلی کی بنا پر نظام زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے ۔ کرونا وبا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن بھی نہیں ہورہی ۔ اسی لیے ماہرین کا خیال ہے کہ صورت حال ایسی ہی رہی تو افغان باشندوں کی بڑی تعداد اس وبائی مرض سے بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔ صرف کرونا وبا ہی نہیں دیگر بیماریوں سے بچاؤ کی ادویات بھی ناپید ہوچکی ہیں ۔ اس سلسلے میں افغان باشندے عالمی ادارہ صحت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کی طبی امداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔
Discussion about this post