بھلا وہ منظر کیسے کوئی فراموش کرسکتا ہے جب 1992 کے فائنل میں عمران خان بالر تھے اور رچرڈ الگنوتھ کے بلے سے نکلی فضا میں اچھلتی گیند کو رمیز راجا نے لپک کر سجدے میں گرنے سے روکنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ اس تاریخی کیچ کے بعد ہی پاکستان کرکٹ کا نیا عالمی فاتح بنا گیا تھا اور اب ایک بار پھر رمیز راجا نے چیئرمین پی سی بی بننے کا کیچ عمران خان کے کہنے پر لپک لیا ہے ۔
سابق چیئرمین احسان مانی اپنی مدت پوری کرچکے تھے اور ایسے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اب کون ان کی جگہ یہ ذمے داری پوری کرتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان نے احسان مانی اور رمیز راجا سے بھی ملاقاتیں کیں ۔ جس کے بعد توقع ہوگئی کہ اب کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کوئی اور نہیں رمیز راجا ہی ہوں گے اور اب وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کی باقاعدہ منظوری دے دی ۔۔۔
رمیز راجا کا کیرئیر
اس 14 اگست کو 59سال گرہ کا جشن منانے والے رمیز راجا کے بڑے بھائی وسیم راجا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرچکے ہیں اور انہی کو دیکھ کر رمیز راجا کے اندر بھی کرکٹر بننے کی خواہش جاگی ۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ جس کے بعد کرکٹ کو ہی اپنا پیشہ بنایا ۔ پاکستان کی جانب سے پہلی بار کرکٹ کھیلنے کا موقع اٰس وقت ملا جب قومی ٹیم نے 1984 میں انگلینڈ کا دورہ کیا ۔
بدقسمتی سے دونوں اننگز میں وہ ایک رنز سے زیادہ نہ بنا سکے ۔ رمیز راجا نے ٹیسٹ میچوں میں 22 نصف سنچریوں اور 2 سنچریوں کی مدد سے 2833 رنز جوڑے ۔ جبکہ 198 ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں انہوں نے 31 نصف سنچریوں اور 9 سنچریوں کے سہارے 5841 رنز بنائے ۔ پاکستان کی جانب سے 1987، 1992 اور 1996کا عالمی کپ بھی کھیلا ۔ 1997 میں انٹرنیشنل کرکٹ سے الگ ہو کر کمنٹری میں انٹری دی ۔ 2004 میں وہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے اور پھر اس عہدے سے بھی الگ ہوگئے ۔ رمیز راجا نے اُس وقت ’ بگ بی ‘ کی حمایت کی ، جب پورے پاکستان میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے ۔
رمیز راجا سے توقعات
کرکٹ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرکٹ پرستاروں کو رمیز راجا سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بورڈ میں تمام تر اختیار چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے پاس ہیں ۔ جبکہ چیئرمین کا کام صرف آئی سی سی اجلاسوں میں شرکت کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ کچھ کرکٹ پنڈتوں کے مطابق رمیز راجا اگر بہتر کام کرسکتے ہیں تو کرکٹ کا پرانا ڈھانچہ بحال کرنے پر وزیراعظم عمران خان کو قائل کریں ۔ بطور سابق کرکٹ وہ وزیراعظم عمران خان کو بتاسکتے ہیں کہ آسٹریلوی طرز کا ڈھانچہ پاکستان میں ممکن نہیں کیونکہ اس طرح ڈیپارٹمنٹس کرکٹ نہ ہونے سے پاکستان میں کرکٹرز کے بے روزگار ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔ دوسری جانب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ رمیز راجا کی موجودگی میں پاکستان ، آئی سی سی میں اپنا ہر معاملہ تیکنکی اعتبار سے بہتر طور پر لڑ سکتا ہے ۔
Discussion about this post