افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے ، جس کے بعد خواتین کو خدشات تھے لیکن افغان طالبان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ خواتین کو ایک حد میں رہتے ہوئے کام کاج اور دیگر فرائض کی اجازت دیں گے بلکہ انہوں نے سرکاری محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو واپس دفتر آنے کا بھی حکم دیا تھا ۔
افغان طالبان کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے بلکہ انہیں اس بات کا موقع دیں گے کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ، افغان طالبان کے اس فیصلے پر خواتین نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔
سوشل میڈیا پر چند تصاویر گردش میں ہیں ، جو ابن سینا یونیورسٹی کابل کی کلاس کی بتائی جاتی ہیں ، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مرد اور خواتین طالب علم ایک ہی کلاس میں تو ہیں لیکن ان کے درمیان پردے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس نوعیت کے انتظامات افغانستان کے اُن تعلیمی اداروں میں کیے جارہے ہیں جہاں مخلوط تعلیم دی جارہی ہے ۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پردے کے اس انتظام پر افغان طالبات نے فی الحال تحفظات ظاہر نہیں کیے ، کیونکہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ پابندیاں ہیں تو کیا کم از کم وہ تعلیم تو حاصل کررہی ہیں ، کیونکہ ابتدا میں یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ طالبان کے آتے ہی خواتین گھروں میں قید ہو کر رہ جائیں گی ۔
Discussion about this post