آج اسلام آباد میں ہی نہیں ملک بھر میں صحافتی تنظیمیں اور چینلز ورکرز پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں کیے جارہے ہیں جب صدر پاکستان عارف علوی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے ۔ صحافتی تنظیمیں اس قانون کو سیاہ قرار دیتی ہیں جبکہ وزرا اس کے دفاع میں ہیں اور کہا یہی جارہا ہے کہ کسی صورت صحافتی تنظیموں اور میڈیا مالکان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے ۔ یہ جنگ صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ چند میڈیا مالکان فیک نیوز کو اپنا حق قرار دے رہےہیں اور اپنے ملازمین کو کہہ رہے ہیں تنخواہ کے ساتھ بونس بھی لیں اور سڑک پر نظر آئیں، عام میڈیا ورکر کو تحفظ اور فیک نیوز کے خلاف بھاری جرمانہ یہ قانون صحافت کے کیسے خلاف ہے؟ جھوٹی خبر کیسے بنیادی حق ہو سکتا ہے؟
چند میڈیا مالکان فیک نیوز کو اپنا حق قرار دے رہےہیں اور اپنے ملازمین کو کہ رہے ہیں تنخواہ کے ساتھ بونس بھی لیں اور سڑک پر نظر آئیں، عام میڈیا ورکر کو تحفظ اور فیک نیوز کے خلاف بھاری جرمانہ یہ قانون صحافت کے کیسے خلاف ہے؟ جھوٹی خبر کیسے بنیادی حق ہو سکتا ہے؟@fawadchaudhry pic.twitter.com/zR5rII0CGU
— Fawad Chaudhry (Updates) (@FawadPTIUpdates) September 13, 2021
پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ممکنہ قیام اس وقت حکومت اور مختلف صحافتی تنظیموں اور میڈیا مالکان کے درمیان رسہ کشی کا شکار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی اے کے قیام سے فیک نیوز، نفرت آمیز مواد اور ایسی خبریں جن کا تعلق فرقہ وارانہ مواد پھیلانا ہو ، اسے روکا جائے گا ۔ جبکہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا مالکان کا اصرار ہے کہ حکومت پی ایم ڈی اے کے ذریعے میڈیا پر نئی پابندیاں لگانا اور اسے اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی اے کا بنیادی مقصد ایسے مواد کو روکنا ہے جس سے قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ان کے بقول جب ایک کالعدم مذہبی تنظیم نے اپریل میں ملک گیر احتجاج کیا تو ایسی ٹویئٹس سامنے آئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹویئٹس بھارتی آئی پیز سے آپریٹ ہورہی تھیں۔ اگرچہ سائبر کرائم کا قانون جو پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی کے ذریعے مختلف مواد پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کا دائرہ اختیار اتنا وسیع نہیں ۔خاص طور پر وہ مواد جو سیل فونز کے ذریعے پوسٹ کیا جاتا ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ پی ایم ڈی اے کے قیام سے آن لائن مواد کو درست پیمانے پر جانچا جائے گا تاکہ جعلی خبریں اور مختلف نوعیت کی نفرت آمیز مواد کو روکا جائے۔ صحافتی تنظیمیں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
صحافتی تنظیموں کے مطابق حکومت کا یہ اقدام آزادی اظہار رائے کے خلاف ہوگا۔ ماضی میں مختلف بلاگرزاور وی لاگرز کو ماضی میں اپنی رائے کے اظہار کی وجہ سے مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس حکومت پی ایم ڈے اے کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو تقویت دینے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق فواد چوہدری ڈیجیٹل میڈیا کی وسعت اور پھیلاؤ پر زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا نے کنوینشنل میڈیا جس میں براڈ کاسٹ اور پرنٹ میڈیا شامل ہیں ان کی جگہ لے لی ہے اور آئندہ آنے والا وقت ڈیجیٹل میڈیا کا ہے ۔ جبکہ صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اس قانون کے ذریعے پرنٹ اور براڈ کاسٹ میڈیا پر قدغن لگانا مقصود ہے۔
پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون میں صحافیوں کی تن خواہوں کے مسائل کو حل کرنے کی بھی تجویز موجود ہے ۔ جبکہ صحافتی برادری کا کہنا ہے کہ حکومت قانون کے ذریعے چینلز کی بندش یا پھر اخبار کی ڈیکلئیریشن منسوخ کرنا چاہتی ہے۔ اس قانون کے ذریعے سوائے سپریم کورٹ کے کوئی اورعدالت یا ادارہ پی ایم ڈی اے کے احکامات معطل نہیں کرسکتا۔
Discussion about this post