جرمنی میں ہونے والے الیکشن میں حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ 16برس تک اقتدار میں رہنے والی اینگلا مرکل کی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹس یونین نے 24.1فی صد ووٹ لے کر 196نشستوں پر قبضہ جمایا لیکن اُن کی جماعت صرف 10نشستوں سے پہلی پوزیشن پر آنے والی بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیمو کریٹس پارٹی سے پیچھے رہ گئی۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ اینگلا مرکل کی جماعت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انتخابی معرکے میں تیسری پوزیشن پر آنے والی جماعت گرینز اینڈ لبرل فری ڈیموکریٹس نے 118نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اب یہی 118نشستیں تعین کریں گی کہ جرمنی میں کس کے پاس اقتدار آتا ہے لیکن سوشل ڈیمو کریٹس کے رہنما اولاف شولز نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اُنہیں حکومت بنانے کا عوامی مینڈیٹ مل گیا ہے۔ جو یہ بھی ظاہر کررہا ہے کہ گرینز اُن کی اتحادی جماعت بننے والی ہے۔
بہرحال ایگزٹ پولز کے نتائج غیر متوقع ہیں بالخصوص ایسے میں جب ایک عام تاثر یہ تھا کہ اینگلا مرکل کی معاشی، عوامی اور فلاحی اصلاحاتی اقدامات کے پیش نظر اُن کی جماعت الیکشن میں آسانی کے ساتھ جیت جائے گی مگر تمام تر تجزیہ اور اندازے غلط ثابت ہورہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل ڈیمو کریٹس پارٹی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2017کے گزشتہ الیکشن میں انہیں 20.5فی صد ووٹ ملے تھے جو اس سال بڑھ کر 25.7فی صد ہوگئے۔اب سیاسی داؤ پیچ آزمائے جارہے ہیں اور کرسچن ڈیمو کریٹس اورسب سے زیادہ 206نشستیں حاصل کرنے والی سوشل ڈیمو کریٹس پارٹی اس جستجو میں ہیں کہ وہی جرمنی پر حکمرانی کا آغاز کریں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو گرینز کی حمایت حاصل ہو۔ فی الحال حکومت سازی کے ان مراحل کے لیے جرمنی کی سیاسی جماعتوں کو دسمبر تک انتظار کرنا ہوگا کیونکہ کرسمس کے موقع پر نئی حکومت کا اعلان ہوگا۔
Discussion about this post