مسلم لیگ نون کے اندر اختلافات کی خبریں وقفے وقفے سے منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ایک گروپ مزاحمت والا ہے تو دوسرا مفاہمت والا اور یقینی طور پر مفاہمت والا گروپ شہباز شریف کا ہی ہے، اب اس ساری صورتحال میں نون لیگ کا کارکن حیران و پریشان ہے کیونکہ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس گروپ کی حمایت کرے۔اسی پس منظر میں اتوار کو خواجہ آصف نے راولپنڈی کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ اختلافات کارکنوں میں نہیں بلکہ قیادت میں ہے۔ بہرحال بعد میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نون لیگ میں مریم نواز کا گروپ مزاحمتی نقطہ نظر کا حامی ہے، جوحکومت کے خلاف سخت بیانیہ رکھتا ہے، جو کسی بھی صورت پی ٹی آئی سے مفاہمت یا گفت و شنید پر راضی نہیں۔ جہاں تک بات شہباز شریف کی ہے، تو وہ گزشتہ 3سال کے عرصے میں اس بات سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں کہ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کرکے پارٹی اور اپنے لیے راہ ہموار کی جائے۔ دوسری جانب حمزہ شہباز بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد سے بالاتر رکھنا ہوگا۔ حمزہ شہباز اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت پارٹی کا متفقہ فیصلہ تھا لیکن مریم نواز کچھ اور کہتی ہوئی نظر آئیں کہ وہ اس فیصلے میں شامل نہیں تھیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزرا تواتر کے ساتھ اس جانب بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ نون اب دھڑوں میں تقسیم ہونے جارہی ہے۔ پیر کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ایک سوال کے جواب میں کچھ ایسا ہی کہا تھا کہ نون لیگ میں شدید نوعیت اختلافات ایسے رونما ہورہے ہیں کہ جو انہیں مزید دھڑوں میں تقسیم کردے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں مسلم لیگ نون نے اپنے دیرینہ مطالبے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بجائے ’کام کوووٹ دو ‘ کے تحت لڑا اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا نون لیگ اپنے اندروانی اختلافات پرقابو پا کر پی ٹی آئی حکومت کو اگلے الیکشن میں ’ٹف ٹائم‘ دے پائے گی؟۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بڑا مشکل سوال ہے کیونکہ مریم نواز کی سیاست اور رویے میں کوئی لچک نہیں، وہ حکومت ہی نہیں اداروں کے خلاف بھی سخت بیانیے کی سوچ پر ابتدا سے قائل ہیں اور یہی بات شہباز شریف کے لیے پریشان کن ہے جو چاہتے ہیں کہ 2023کے انتخابی معرکے میں اگر وہ اتریں تو پارٹی کا ایک ہی بیانیہ ہو۔
Discussion about this post