گلاب، نرگس ، نیلوفر، کترینا ، مہک ، ڈولی نام ہی سن کر خوشگوار احساس ہوتا ہے لیکن صرف نام ہی حد تک کیونکہ یہ سارے نام اُن طوفانوں کے ہیں جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں رونما ہوچکے ہیں۔ اس وقت کراچی والے گلاب سے پریشان ہیں جو خلیج بنگال سے اٹھ کر بحیرہ عرب تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے اثرات کراچی کی ساحلی پٹی پر پڑے ہیں۔
خواتین کا نام ہی کیوں؟
آخر اس قدر رومانی اور نسوانی نام کیوں طوفانوں کودیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ نام چونکہ زیادہ آسان ہوتے ہیں اس لیے بھی جبکہ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عالمی موسمیاتی تنظیم کے کچھ اصول ہیں۔ جس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے کہ طوفان کے ناموں سے ہیبت یا خوف طاری نہ ہو۔ اسی لیے صنف نازک ، پھولوں یا پھر کسی اور پرکشش ناموں کو ان طوفان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق طوفانوں کے نام عالمی موسمیاتی تنظیم کے رکن ممالک تجویز کرتے ہیں۔ تیرہ ممالک ہیں تو ہر ملک تیرہ نام تجویز کرے گا بعد میں ان ناموں کی منظوری کے بعد ہر ملک کی جانب سے تجویز کردہ فہرست میں موجود پہلے نمبر والے ناموں کو منتخب کرنے کے بعد تیرہ ناموں پر مشتمل فہرست بنا دی جاتی ہے۔ تاریخی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پچاس کی دہائی میں طوفانوں کے نام مشہور شخصیات، گرل فرینڈز، عوامی لیڈران اور ان کی بیگمات پر رکھے جاتے تھے لیکن پھر بعد میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ اب نام صرف خواتین کے نام پر ہی ہوں گے۔ جس پر 1979 کے خواتین کی تنظیموں کے احتجاج پر مردوں کے نام بھی رکھنا شروع ہوئے لیکن پھر 1986 میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ مردانہ نام طوفانوں کی شدت اور رومانوی کیفیت کے اظہار سے قاصر ہیں۔
اب تک کتنے نام تجویز ہوچکے ہیں؟
پاکستانی ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اب تک 7 سمندری طوفانوں کے نام تجویز کرچکا ہے ۔ ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، ’وردا‘ اور ’تتلی‘ نمایاں ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ طوفان تباہ کن ہوتے ہیں لیکن ناموں کی وجہ سے یہ کسی بھی صورت خطرناک نہیں لگتے۔
گلاب طوفان کے بارے میں مزید جانیے:
خبردار! بارش کے موسم میں یہ غلطیاں ہر گز نہ کریں
Discussion about this post