ایک طالب علم کے لیے صنفی امتیاز، نامناسب رویہ اور توہین آمیز سلوک پر سوشل میڈیا پر آواز اٹھانا بہت بڑا جرم بن گیا۔ یونیورسٹی سے بے دخلی کا حکم ملا تو فیصلے پر ساتھی طالب علموں نے شدید احتجاج کیا۔طالب علم کا قصور صرف یہ تھا کہ اُس نے یونیورسٹی میں خاتون ملازم کے ساتھ آنے والے ناروا سلوک پر احتجاج کیا، اِس طرز عمل کو انسانی توہین قرار دیا۔ یہ قصہ ہے کراچی کی بڑی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا۔ جو بزنس ایڈمنسٹریشن میں ذہین اور قابل طالب علم ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تیار کرتی ہے۔
دراصل واقعہ ہوا کیا تھا۔ 25 اگست کو محمد جبرائیل نامی طالب علم نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ جب وہ یونیورسٹی کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں ضروری کام سے گئے تو وہاں کا منظر دیکھ کر لرز اٹھے۔وہاں موجود ایک افسر، خاتون ملازم پر بری طرح برس رہے تھا ۔ وہ افسر چیختے ہوئے بولے کہ میں رات تک تمہیں بٹھاؤں گا۔ اِدھر خاتون ڈری سہمی تھیں، مرد اسٹاف کی موجودگی میں اس تذلیل پر اُن کا خون کھول اٹھا ۔
جبرائیل کا کہنا تھا کہ اس منظرنے انہیں خاصا پریشان کیا کہ بھلا کیسے کوئی کسی خاتون سے اس طرح کا نامناسب رویہ اختیار کرسکتا ہے ۔ وہ یونیورسٹی کی ہراسمینٹ کمیٹی میں متعلقہ صاحب کی شکایت کا ارادہ رکھتے تھے لیکن یہ سوچ کر کچھ نہ کرسکے کہ کہیں خود اُن کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ درپیش ہوجائے، اسی لیے جس واقعے نے انہیں ذہنی طور پر فکر مند کیا، اُسے سوشل میڈیا پربیان کہ وہ کس کرب سے گزرے ہیں۔ 26اگست کو محمد جبرائیل نے فیس بک کے ذریعے بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کی تمام تر تفصیلات یونیورسٹی کی ہراسمینٹ کمیٹی کو ای میل ہیں ، اگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا تو وہ سندھ اور وفاقی حکومت تک یہ مسئلہ لے کر جائیں گے۔ اس دوران محمد جبرائیل کی آواز پر ساتھیوں نے متعلقہ افسر اور یونیورسٹی کی پراسرار خاموشی کے خلاف یونیورسٹی احاطے میں مظاہرے اور احتجاج بھی کیے۔ طالب علموں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظریونیورسٹی نے واقعے کی تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا۔ اور اب کم و بیش کئی ہفتوں تک چلنے والی اس تحقیقات کے بعد یونیورسٹی نے محمد جبرائیل کے خلاف ہی ایکشن لے لیا۔
یونیورسٹی نے بدھ کو ایک تفصیلی بیان جاری کیا، جس میں لکھا کہ طالب علم محمد جبرائیل نے ’ایس او پیز‘ پر عمل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کا پہلے سہارہ لیا۔ طالب علم نے سوشل میڈیا پر اس سارے واقعے کو شیئر کرکے یونیورسٹی کے ملازم کی حفاظت کو خطرے میں ڈالا۔ طالب علم کے عمل سے فنانس ڈپارٹمنٹ سمیت ادارے کے ہر ملازم کو ملکی سطح پر بدنامی کاسامنا کرنا پڑا۔
جبکہ طالب علم نے احتجاج اور مظاہروں کی قیادت کرکے انتظامیہ کے خلاف دوسرے طالب علموں کو اکسایا۔ ذرائع ابلاغ کو واقعات توڑ مروڑ کر بیان کیے،طالب علم کو کئی بار مواقع دیے کہ وہ اپنا طرز عمل بہتر کرے لیکن وہ باز نہیں آیا، اسی لیے نظم و ضبط کی کمیٹی نے متعلقہ طالب علم کو فوری طور پر یونیورستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق وہ از خود خاتون کے ساتھ ہراسمینٹ کے واقعے کی تحقیقات کررہی ہے اور جو بھی قصور وار ہوا، اُس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اس سارے واقعے پر سوشل میڈیا پر محمد جبرائیل کی حمایت میں صارفین ہیں جبکہ یونیورسٹی کے جبری فیصلے پر تنقید کی جارہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ جب اتنے بڑے اور مستند ادارے میں برداشت کا عنصر نہیں ہوگا، وہ کس طرح مستقبل کے معماروں کو تیار کریں گے۔ بیشتر صارفین تو یہ بھی کہنا ہے کہ متعلقہ یونیورسٹی کوئی معمولی نہیں، وہاں خواتین ملازمین کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا اور محمد جبرائیل کا آواز اٹھانے پر قصور وار اُنہی کو ٹھہرنا کسی صورت جائز نہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں سے نکل کر نوجوان مختلف ملکی اور غیر ملکی اداروں میں ایچ آر جیسے شعبے میں بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، وہ بھلا اس سارے واقعے سے کیا سبق سیکھیں گے؟ کس طرح اپنے ملازمین کے ساتھ پیش آئیں گے۔ صنفی امتیاز اور خواتین کے ساتھ ہراسمینٹ اس ادارے کی ساکھ کو متاثر کرگئی ہے۔
کمپنی ایکٹ اس معاملے میں کیا ہیں؟
اس سارے معاملے میں اگر کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے کی قوانین و ضوابط کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملازم یا اِس سے وابستہ فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کو ادارے کے خلاف استعمال کرے۔ قانونی ماہرین کے مطابق 25اگست کو محمد جبرائیل نے اس سارے واقعے کو پہلے فیس بک پر پوسٹ کیا اور پھر بعد میں یعنی 26اگست کو یونیورسٹی کی ہراسمینٹ کمیٹی کو بذریعہ ای میل اس واقعے سے آگاہ کیا۔ اگر وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے اور سوشل میڈیا کے بجائے اپنی کی ہوئی ای میل کے جواب کا انتظار کچھ دنوں اور کرتے تو ممکن ہے کہ وہ یونیورسٹی سے بے دخلی کا شکار نہیں ہوتے۔ عام طور پر ایسے معاملات میں متعلقہ کمیٹیاں تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی کوئی اقدام کرتی ہیں۔
Discussion about this post