عالمی بینک نے پاکستانی عوام کو خبردار کردیا کہ مہنگائی کا یہ طوفان تھمے گا نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ اس میں اضافہ ہوا۔ عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں میں مہنگائی کی شرح9 فیصد رہے گی جو کہ صرف ایک فیصد دوری پر ہے کہ اگر مہنگائی کی شرح ڈبل ڈیجٹ میں آجائے تو مہنگائی کا شدید طوفان آتا ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان کی شرح نمو 3.4 فیصد پر رہنے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ جو کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے ترقی کے فیگرز جو4.7 پر جاتے ہیں ان کی بھی نفی کرتا ہے۔ پاکستانی مالیاتی اداروں نے ملکی شرح نموکا 4.7 کا تخمینہ لگایا تھا جو کہ مالیاتی 2020-21کے لیے تھا۔نا صرف یہ بلکہ عالمی بینک نے حالیہ برس کی 4 فیصد ترقی کے حکومتی دعوؤں کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ مزید یہ کہ اگر پاکستان 3.4 کی معاشی ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے آئی ایم آیف سے اپنے رکے ہوئے پروگرام کو ُپھر سے بحال کرانا ہوگا۔ یہ سب باتیں عالمی بینک نے اپنی سالانہ’ساؤتھ ایشیا اکنامکس فوکس‘کی رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے البتہ منگل کے روز اس بات کا دعوی ٰکیا تھا کہ ملک میں نوکریوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔اس دعوے کو پرکھنے کے لیے عالمی بینک کے اعدادوشمار کو سامنے رکھیں تو شرح نمو میں کمی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ملک میں بے روزگاری، موجودہ افرادی قوت سے کہیں زیادہ ہے۔ عالمی بینک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ بجلی کے نرخ میں اضافہ گردانہ ہے۔ مزید یہ کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت نے بھی مہنگائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یاد رہے حکومت ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں دنیا بھر سے نسباتاً سستی ہیں۔ البتہ خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کی اس برس زرعی ترقی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا مگر صنعتی ترقی اور سروس سیکٹر میں کمی آنے کا امکان ہے۔
گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر نے بھی خبر دار کردیا تھا کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے معاشی طور پر تھوڑے سخت ہونگے۔اسٹیٹ بینک نے پچھلے ماہ ہی کچھ ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے یہ تا ثر مل رہا تھا کہ اسٹیٹ بینک قومی طلب کو اور مہنگائی کو قابو میں لانا چاہ رہا تھا۔ جیسے شرح سود میں اضافہ اور در آمد گاڑیوں پر ملنے والے قرض پر مکمل پابندی۔ اس وقت ڈالر 171 روپے پر ٹرید ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اسی ہفتے 500 ڈالرز کی اوپن مارکیٹ سے خریدنے پر باؤ میٹرک تصدیق کی شرط لازمی قراردے دی ہے۔ پہلے صرف شناختی کارڈ کی تصدیق سے آپ ڈالرز خرید سکتے تھے۔ یہ اقدام اس لیے اٹھا یا گیا ہے تاکہ ڈالرز کی مانگ میں کمی آئے مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں سیاسی تبدیلوں نے ڈالرز کی مانگ میں اضافہ کردیا ہے۔
کاروبار سے متعلق مزید پڑھیں:
موٹر سائیکل۔۔ سستی سواری بھی اب پڑے گی بھاری
Discussion about this post