ڈاکٹر عبدالقدیر خان 60کی دہائی میں جب بیلجیئم کی یونیورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کررہے تھے، تعطیلات کے دوران انہوں نے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کا رخ کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی تھی کہ وہ جس ملک یا شہر کا رخ کرتے تو وہاں سے پوسٹ کارڈ خرید کر چھوٹی بہن کو ضرور روانہ کرتے۔ ایک روز جب وہ بازار کا رخ کرکے دکان میں داخل ہوئے تو ایک پوسٹ کارڈ اُنہیں پسند آیا۔ خرید کر دریافت کیاکہ کیا پاکستانی ڈاک ٹکٹ ہے؟ جواب میں معذرت ملی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھوڑ ا بہت پریشان ہوئے، جو قریب کھڑی ایک لڑکی نے محسوس کیا ۔ جس نے مسکراتے ہوئے ہینڈ بیگ کھولا اور اُن کی جانب پاکستان کا ڈاک ٹکٹ بڑھا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی، جنہوں نے لڑکی کو ڈاک ٹکٹ کی رقم دینا چاہی تو اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
اظہار تشکر کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس اجنبی لڑکی سے دریافت کیا کہ وہ کیا کرتی ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ وہ طالبہ ہیں۔جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اُنہیں بتایا کہ وہ برلن میں پڑھ رہے ہیں اور تعطیلات پر ہالینڈ آئے ہیں۔اس غیر رسمی ملاقات کے بعد دونوں میں رابطے کا تبادلہ ہوا۔ جرمنی آنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس لڑکی ہینی کو شکریہ کا خط لکھا، جس کے بعد دونوں میں خط و کتابت شروع ہوئی، جس کے بعد ملاقاتیں بھی ہوئی اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پسند ایسے کرنے لگے کہ منگنی کے بعد 9مارچ 1968کو کو دونوں نے شادی بھی کرلی۔ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور ہینی قدیر دو صاحبزادیوں کے والدین رہے۔
جب بھٹو صاحب کو ’بیگم‘ سے پوچھ کر جواب کا کہا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے تھے کہ 1974میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو انہوں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ اگر پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کی تیاری نہ کی تو مستقبل میں پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی اور وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے تمام تر خدمات انجام دینے کے لیے تیار ہیں، اس خط کے جواب میں بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فوری طور پر وطن طلب کیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں باقاعدہ طور پر اس شعبے میں کام کا آغاز ہوا۔
اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس چلے گئے اور پھر ایک سال بعد آئے تو انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ایٹمی ملک بنانے کے لیے انہوں نے جو مختلف منصوبے پیش کیے تھے، اُن پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ دل برداشتہ ہو کر بھٹو صاحب کو بتادیا کہ وہ 15جنوری کو واپس جارہے ہیں۔ جس پر بھٹو صاحب نے یہی کہا کہ ایسا مت کریں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انہیں ساری صورتحال بتائی اور ساتھ ہی کہا کہ انہیں کئی غیر ملکی یونیورسٹز سے پروفیسر شپ کی پیش کش ہورہی ہیں اور جو جوہری منصوبے وہ بتا کر گئے تھے، اُس پر تو پاکستان میں کام ہی نہیں ہورہا۔ بھٹو صاحب نے ایک بار پھر درخواست کی، جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہی کہا کہ وہ بیگم سے پوچھ کر اُنہیں جواب دیں گے۔ گھر آنے کے بعد جب انہوں نے بیگم ہینی کو ساری صورتحال بتائی تو ابتدا میں اُن کا یہی کہنا تھا کہ واپس چلتے ہیں لیکن پھر اچانک ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے انتہائی پرسکون لہجے میں کہا کہ اُنہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دو خوبیاں پسند ہیں۔ ایک تو وہ جھوٹ نہیں بولتے اور دوسرے انتہائی رحم دل ہیں۔اگر وہ یہاں ٹھہر جاتے ہیں تو کیا پاکستان کی کوئی اچھی خدمت کرنے کے قابل ہوں گے؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بیگم کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کے علاوہ کوئی یہ شخص کام نہیں کرسکتا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی قوت کا روپ دے۔یہ جواب سننے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ڈچ بیگم ہینی نے طویل سانس لی اور کہا ’ٹھیک ہے۔۔ پھر ہم واپس نہیں جارہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ اُن کی بیگم نے اُس وقت صرف پاکستان سے محبت اور اُس کے لیے کام آنے کا سوچا۔پرآسائش زندگی کو چھوڑ کر شوہر کی کامیابی میں مثالی کردار ادا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں مزید پڑھنے کے لیےکلک کریں :
ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر صدر، وزیراعظم اور عسکری قیادت کا اظہار تعزیت
Discussion about this post