صحافی اور اب سماجی کارکن اب فیس بک کی طرف سے پبلک فیگر کے طور پر پرکھیں جائیں گے تاکہ کسی بھی قسم کی ہراسگی یا کردار کشی کہ مہم سے بچایا جاسکے۔ یہ اعلان فیس بک کے گلوبل سیفٹی چیف اینٹی گون ڈیوس نے ایک انٹرویو میں کیا۔ فیس بک جو پبلک فیگرز پر تنقیدی تبصرے کی اجازت دیتی ہے مگر ہراسگی اور آن لائن ہارم کی قطعاً اجازت نہیں دیتی، اسی پیمانے پر اب صحافی حضرات اور انسانی حقوق کا پاسداران بھی پورے اترے گے، جسے فیس بک کی انتظامیہ اب“Involuntary Figure”کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ تبدیلیاں اس لیے لائی جارہی ہِیں کیونکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کام لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی صحافی حضرات بہت زیادہ آن لائن ٹرولنگ یا باقائدہ کردار کشی کی مہم کے عتاب میں رہتے ہیں۔ کچھ پر سیاسی ”لفافے” ہونے کا الزام اور کچھ کے خلاف لغوایات کا بھر پور استعمال دیکھنے میں آتا ہے۔ نہ صرف مرد صحافی حضرات بلکہ خواتین صحافیوں کوبھی آن لاِئن ٹرولنگ کے ذریعے ذہنی طو ر پر پریشان کیا جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی نامور خاتون صحافیوں نے قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی ک چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھاکہ کس طرح سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندے انھیں ملک دشمن کہہ کر نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ گو کہ ایف آئی آے کا سائبر کرائم ونگ اس طرف کی موٹیویٹڈ مہم کے پیچھے منظم گروپس کا پتا تو چلا تا ہے لیکن کچھ مصلحتوں کے تحت ان افراد یا عوامل کے خلاف کاروائی نہیں کرپاتا۔ فیس بک پر موجود صحافی اب کسی بھی طرح کی آن لائن سائبر ب لنگ کو کمینویٹی ضوابط کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرکے ان اکاؤنٹس کو بند کرواسکتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ ہولڈرز فیک آئی ڈی چلا رہے ہیں۔
دوسری بات یہ بھی دیکھی گئی ہے کہ فیس بک کی پالیسیز غیر ترقی یافتہ ممالک اور وہاں کی سیاسی یا سماجی تغیرات کے لحاظ سے سست روی کا شکار رہتی ہے۔فیس بک انتظامیہ صرف انھیں کمیونٹی ضوابط کی خلاف ورزی پر کارروائی کرتے ہیں جو امریکی، بھارتی یا کچھ طاقت ور ممالک کے مفاد کے بظاہر خلاف ہوتے ہیں۔
Discussion about this post