آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ چند مہینوں نہیں بلکہ اب چند دنوں کی دوری پر ہے۔ ایونٹ 17 اکتوبر کو شروع ہوگا اور 14 نومبر 2021 کو اختتام پذیر ہوگا۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ ٹیم کی میزبانی سے جبری طور پر محروم کی گئی پاکستانی قوم اس ایونٹ سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھی ہیں اور بلاشبہ اس ایونٹ میں پاکستان کی کامیابی کرکٹ کے کھیل میں پاکستانی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا دوگنا لگان بن سکتی ہے۔ اس ایونٹ کو جیتنے سے پاکستان کو ناصرف جذباتی فائدہ حاصل ہوگا بلکہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دورے منسوخ ہونے سے جو مالی نقصان ہوا ہے، کچھ اس کا ازالہ بھی ممکن ہوسکے گا۔
انعامی رقم کتنی ہے؟
ایونٹ کی فاتح ٹیم کو 16 لاکھ ڈالر انعامی رقم دی جائے گی جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی رنر اپ ٹیم کو اس انعامی رقم کا نصف یعنی آٹھ لاکھ ڈالرز ملیں گے۔ اسی طرح تمام 16 ٹیموں کو مجموعی انعامی رقم یعنی 56 لاکھ ڈالرز میں سے حصہ دیا جائے گا۔ دس اور 11 نومبر کو کھیلے جانے والے سیمی فائنلز میں ہارنے والی دونوں ٹیموں کو چار، چار لاکھ ڈالرز ملیں گے۔2016 کے ٹورنامنٹ کی طرح سپر 12 مرحلے میں ہر میچ جیتنے پر ایک بونس رقم بھی ملے گی۔ اس مرحلے میں کل 30 میچز کھیلے جائیں گے جس میں سے ہر میچ جیتنے پر 40 ہزار ڈالرز دیے جائیں گے جو کہ مرحلے کے لئے مجموعی طور پر مختص کردہ رقم یعنی 12 لاکھ ڈالرز ہیں۔ ایونٹ کے لئے بنائی گئی نئی پلئینگ کنڈیشنز کے مطابق ہر ٹیم کو ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ دو ریویو ملیں گے۔ بارش سے متاثر ہونے والے میچ میں ڈک ورتھ لوئس قانون کے اطلاق کے لیے کم سے کم ایک اننگ میں پانچ اوورز ہونا لازمی ہوگا۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ سیمی فائنل اور فائنل کے لیے ڈک ورتھ لوئس قانون 10 اوورز فی اننگز پر مشتمل ہوگا۔
کورونا وبا کے بعد پہلا ایونٹ
کورونا کی وبا کے سامنے آنے کے بعد یہ آئی سی سی کا پہلا بڑا ایونٹ ہوگا جسے ابتدائی طور پر بھارت میں منعقد کیا جانا تھا تاہم بعد میں اسے متحدہ عرب امارات اور عمان منتقل کردیا گیا۔ ان خلیجی ریاستوں میں منعقد ہونے والے ٹی20 ورلڈکپ میں کل 16 ٹیمیں مدِمقابل ہوں گی۔ اس ٹی20 ورلڈکپ میں ماضی کے ورلڈ کپ کی نسبت بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں ہوں گی تاہم چند چیزیں ایسی ہیں جو اس ٹی20 ورلڈکپ کو منفرد بناتی ہیں۔
پاکستان فیورٹ نہیں؟
پاکستانی ٹیم اس ورلڈ کپ میں بطور فیورٹ تو داخل نہیں ہو رہی لیکن کرکٹ گروز کا ماننا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے ماضی کے تجربے کے باعث اسے فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔یہ ٹی20 ورلڈکپ پاکستانیوں اور اس سے زیادہ بابر اعظم کے لیے اس لیے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ نہ صرف یہ ان کا پہلا ٹی20 ورلڈکپ ہے بلکہ وہ اپنے پہلے ٹی20 ورلڈ کپ میں ہی بطور کپتان شریک ہورہے ہیں۔بابر اعظم نے بین الاقوامی ٹی20 کرکٹ میں اپنا ڈیبیو 2016 میں کیا۔ اس کے بعد سے اب تک وہ 61 ٹی20 مقابلوں میں شرکت کرچکے ہیں۔ ان میچوں میں انہوں نے 46.89 کی بیٹنگ اوسط کے ساتھ کل 2204 رنز بنائے ہیں اور ان میچوں میں 29 کیچز بھی پکڑے ہیں۔ بین الاقوامی ٹی20 میچوں میں ان کا اب تک کا سب سے بڑا اسکور 122 رنز کا ہے۔بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے اب تک 28 بین الاقوامی ٹی20 میچ کھیلے ہیں جن میں سے 15 میں ٹیم کو فتح حاصل ہوئی اور 8 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ خود بابر اعظم کا اس حوالے سے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ محض اسٹرائیک ریٹ کی خاطر گہرائی کے ساتھ کھیلنا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ محمد رضوان کے ساتھ تادیر کریز سنبھالے رکھیں بلکہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنا کھیل تبدیل کئے بغیر رنز کی فراہمی ممکن بناتے رہیں جس کیلئے یہ بات پیش نظر رہتی ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک اننگ کے بیشتر حصے میں کریز پر موجود رہے۔
بابر اعظم نے اعتراف کیا کہ مختصر فارمیٹ میں ریکارڈ فتوحات کے باوجود پاکستانی ٹیم دو شعبوں میں جدوجہد کر رہی ہے جس میں سے ایک مڈل آرڈر بیٹنگ اور دوسری ڈیتھ بالنگ ہے، جس کیلئے مختلف کامبی نیشن آزمائے گئے لیکن بدقسمتی سے حالیہ کچھ کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں مگر یہی کرکٹ ہے کیونکہ کھلاڑی کامیابی کی ضمانت کے ساتھ منتخب نہیں کئے جاتے تاہم ہر ایک کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی کارکردگی ہی انہیں ٹیم میں مستقل جگہ دلا سکتی ہے ۔ ایونٹ کے لیے پاکستان کے 18 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا جا چکا ہے جس میں خصوصی کووڈ پروٹوکولز کے تحت تین ریزرو کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر جس اسکواڈ کا اعلان کیا گیا تھا اس میں نیشنل ٹی 20 ٹورنامنٹ کے بعد چار تبدیلیاں کی گئی ہیں اور جہاں سرفراز احمد، شعیب ملک اور حیدر علی پہلی مرتبہ اسکواڈ کا حصہ بنے ہیں وہیں فخر زمان کو ریزرو کھلاڑی سے مرکزی اسکواڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایونٹ کی گروپنگ کیا ہے ؟
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 کے پہلے راؤنڈ اور 12 سپر ٹیموں کے دو گروپس بنائے گئے ہیں جس میں پاکستان اور بھارت ایک ہی گروپ میں شامل ہیں۔پہلے مرحلے کے لیے ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور دوسرے مرحلے کو سپر 12 کانام دیا گیا ہے، جس میں 12 ٹیموں کو 6،6 کے 2 گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے۔پاکستان اور بھارت سپر 12 کے گروپ ٹو میں شامل ہیں، جہاں ان کے علاوہ نیوزی لینڈ، افغانستان اور پہلے مرحلے سے کوالیفائی کرنے والی 2 ٹیمیں شامل ہوں گی۔سپر 12 کے گروپ ون میں ایک روزہ کرکٹ کی عالمی چمپیئن انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور پہلے مرحلے سے آنے والی دو ٹیمیں شامل ہوں گی۔
پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا
پاکستان اور انڈیا اتوار 24 اکتوبر کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستانی وقت کے مطابق شام سات بجے مدِمقابل ہوں گے۔ ون ڈے ورلڈکپ کی طرح پاکستان نے انڈیا کو اب تک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شکست نہیں دی۔ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان ورلڈ کپ مقابلوں میں 4 میچ کھیلے جا چکے ہیں جن میں تمام ہی انڈیا کے نام ہوئے ہیں۔ بھارت نے 2007ء میں منعقدہ پہلا ٹی20 ورلڈ کپ جیتا تھا اور پاکستان نے 2009ء میں یہ تاج اپنے سر سجایا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں ہی ٹیمیں دوسری مرتبہ اس ٹائٹل کے حصول کی بھرپور کوششیں کررہی ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیموں کے پاس ٹکر کے بلے باز اور باؤلرز موجود ہیں جس کے سبب یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ شاید ٹی20 ورلڈ کپ2021ء کے سب سے زیادہ سنسنی خیز مقابلوں میں سے ایک مقابلہ ہو۔ 4 اکتوبر کو ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کے میچوں کے ٹکٹوں کی فروخت شروع ہوتے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ کے ٹکٹ ابتدائی چند منٹوں میں ہی فروخت ہو گئے۔
پاکستان کے دیگرمیچز
پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں منگل 26 اکتوبر کو شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستانی وقت کے مطابق شام سات بجے مدِ مقابل ہوں گی۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں پانچ مرتبہ آمنے سامنے آئی ہیں جن میں سے 3 میں پاکستان جبکہ 2 میں نیوزی لینڈ کو فتح حاصل ہوئی ہے۔
ماضی کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ
پہلا آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ جنوبی افریقہ میں منعقد ہوا جبکہ اس کے بعد کے ورلڈ کپ انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت میں کھیلے گئے۔ یہ تمام ممالک آئی سی سی کے مستقل رکن تھے۔ تاہم اس سال کا آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ متحدہ عرب امارات اور عمان میں منعقد ہورہا ہے جو آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ممالک ہیں۔ یوں یہ پہلا ٹی20 ورلڈ کپ ہے جو آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ممالک میں منعقد کیا جارہا ہے۔
ٹیموں کی تعداد
اس ٹی20 ورلڈکپ میں کل 16 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ 14 ٹیمیں تو پہلے بھی ٹی20 ورلڈ کپ کھیل چکی ہیں تاہم پاپوا نیو گینی اور نمیبیا کی ٹیمیں پہلی مرتبہ ٹی20 ورلڈکپ میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ دونوں ٹیمیں کوالیفائنگ راؤنڈ میں ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا ان میں سے کوئی ٹیم سپر 12 میں پہنچتی ہے یا نہیں۔
ماضی میں ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل جن جن ممالک میں کھیلے گئے وہ تمام ممالک خود بھی ٹی20 ورلڈ کپ کا حصہ تھے تاہم اس مرتبہ ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل دبئی میں کھیلا جارہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ میں شامل نہیں ہے۔ یوں تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ جس ملک میں ٹی20 ورلڈکپ کا فائنل کھیلا جائے گا وہ ملک ٹی20 ورلڈکپ کا حصہ نہیں ہوگا۔
Discussion about this post