چینی مصور یانگ یکژین کو اس بات کا رنج ہے کہ ریسٹورنٹ، ہوٹلز اور گھروں میں ضرورت سے زیادہ کھانا تیار ہوتا ہے اور پھر بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر کھانا کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ شنگھائی کے اس مصور نے عوام میں آگاہی دینے کے لیے انوکھی مہم کا آغاز کیا ہے۔جنہوں نے ننھے منے چاول کے ٹکڑے شہر میں گھومتے پھرتے مختلف کچرا دانوں، دریا اور نالیوں میں پھینکنے شروع کیے۔ ابتدا میں سب یہی سمجھے کہ یہ چاول کے ٹکڑے جو سنہری رنگت کے ہیں، انہیں رنگا گیا ہے لیکن چینی مصور نے سب کو بتایا کہ یہ ایک ہزار کے قریب چاول دراصل سونے کے ہیں جن کا وزن 500گرام بتایا جاتا ہے جبکہ قیمت 35ہزار7سو ڈالر کے قریب ہے۔
چینی مصور نے اپنا یہ انوکھا احتجاج سوشل میڈیا پر باقاعدہ ریکارڈ کرکے عوام کے سامنے پیش کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کھانے جیسی اہم اور قیمتی ضرورت کو انتہائی بے دردی سے کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے یہ واضح کیا کہ جو کھانا کچرے کی نذرکیا جاتا ہے، وہ سونے سے کم نہیں۔ بہرحال اِن کے اس عمل پر جہاں تعریف ہورہی ہے، وہیں تنقید کا سامنا بھی کیا جارہا ہے۔ بیشتر صارفین کا کہنا ہے کہ چاول کا ایک دانہ ضائع ہوجاتا ہے تو کسی کو اس کی فکر نہیں ہوتی، البتہ سونے کے دانے ضائع ہونے پر چینی مصور کو ہدف تنقید بنانا کسی صورت درست نہیں۔
بہرحال یانگ نے اپنے عمل سے یہ تاثر دیا ہے کہ چاول کو سونے اور سونے کو کچرے کے برابر ہی وہ گردانتے ہیں۔جنہوں نے خصوصی طور پر چاول کے سائز کے سونے کے یہ ٹکڑے سنار سے بنائے۔ جو دیکھنے میں چاول ہی لگتے ہیں۔
چین میں خالی پلیٹ مہم
حالیہ برسوں کے دوران ملک بھر میں ’خالی پلیٹ مہم‘ جاری ہے۔ جس میں عوام کو اس بات کی تاکید کی جارہی ہے کہ وہ کھانے کو ضائع نہ کریں ۔استعمال سے زیادہ کھانے کی تیاری کریں اور ناہی آرڈر دیں۔رواں برس اپریل میں بیجنگ میں خوراک کے ضائع کرنے کے خلاف قانون بھی منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت سزا کا بھی اعلان ہوا تھا۔
Discussion about this post