ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تو جیسے لگ رہا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اگلے پچھلے تمام تربدلوں کا حساب کتاب برابر کرنے کے لیے شروع ہوا ہے۔ پہلے بھارت کو ہرا کرکسی بھی عالمی کپ میں 29سال سے ناقابل شکست رہنے کا بدلہ اتار ا گیا اور وہ بھی شاندار انداز میں کہ دنیا تعریف کرنے پر مجبور ہوئی۔ پھر باری آئی نیوزی لینڈ کی جو ایک ’جعلی ای میل‘ کی بنا پر چند گھنٹوں پہلے پاکستان کا دورہ منسوخ کرکے نو دو گیارہ ہوگئی تھی۔ کیوی ٹیم کو پاکستان نے ایسا دبوچا کہ بے چارے اب افغانستان کو ہرا کر ہی سیمی فائنل میں پہنچ سکتے ہیں۔
ایسے میں بھلا افغان ٹیم سے کیوں بدلہ نہیں لیا جاتا۔ جس کے جنونی اور بے قابو تماشائیوں نے 2019کے عالمی کپ کے میچ میں شکست کھانے کے بعد پاکستانی تماشائیوں پر بدترین حملے کیے تھے۔ یہی نہیں جنگ و جدل کا خود شکار افغان ٹیم نے چند ماہ قبل یہ کہہ کر دورہ منسوخ کردیا کہ پاکستان میں سیکوریٹی صورتحال بہتر نہیں۔ ظاہری بات ہے کہ یہ’اشارے‘ کہیں اور سے ملے تھے لیکن پاکستانی ٹیم نے اُن پر ایسا غصہ اتارا کہ 19ویں اوور میں آصف علی نے 4چھکے مار کر اس کا بھی حساب چکتا کیا۔ پھر باری آئی نمبییا سے بدلہ لینے کی، وہی نمبییا جس نے ہاتھی دینے سے انکار کیا تھا۔قومی ٹیم نے اُس کا بھی بدلہ لے ڈالا۔
اب جبکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ایک گروپ کی سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیمیں انگلینڈ اور آسٹریلیا کی صورت میں سامنے آچکی ہیں۔ اِدھر پاکستان بھی سیمی فائنل کھیلنے کا اہل قرار دے دیا گیا ہے تو یقینی طور پر پاکستان کا ٹکراؤ آسٹریلیا سے ہی ہوگا۔آسٹریلیا جس نے 1987کے عالمی کپ کے سیمی فائنل میں 18رنز سے دور رکھ کر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھااور یوں کپتان عمران خان کا فائنل کھیلنے کا سپنا ادھورا ہی رہ گیا ۔
پھر اسی آسٹریلیا نے 1999کے عالمی کپ کے فائنل میں پاکستان کی مضبوط ٹیم کو 8وکٹوں سے ہرایا تھا۔ قصہ صرف یہی ختم نہیں ہوا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2010میں یہی آسٹریلیا تھی، جس نے ہاری ہوئی بازی پلٹی تھی اور مائیک ہسی نے سعید اجمل کا اوور ایسا لوٹا کہ کینگروز 3وکٹوں سے فتح یا ب ہو کر پاکستان کو فائنل سے باہر کرگیا۔
اور بھلا کون بھول سکتا 2015کا عالمی کپ، جس کے کوارٹر فائنل میں ایک بار پھر پاکستان کے مقابل آسٹریلیا تھا۔جس میں وہاب ریاض، شین واٹسن کو تبا ہ کن باؤنسرز مار کر کئی برسوں تک قومی ٹیم کے ساتھ برسوں تک چمٹے رہے۔
لیکن پاکستان اس کوارٹر فائنل میں 6وکٹوں سے آسٹریلیا سے ہار کھا بیٹھا۔ یعنی یہ سمجھیں کہ ماضی کے 4 نا ک آؤٹ مقابلوں کا آسٹریلیا سے بدلہ لینے کا وقت آگیا۔
اب کسی نے پاکستان ٹیم کے لیے درست ہی کہا ہے کہ وہ یہی سوچتے ہوں گے کہ ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کیا ؟۔۔۔ بدلہ۔۔ صرف۔۔ بدلہ!!! ویسے یہاں یہ بھی بتادیں کہ یہ آسٹریلیا ہی تھی، جس نے 1992کے عالمی کپ میں مضبوط اور طاقت ور ویسٹ انڈیز کو حیران کن طور پر ایک ہارا ہوا میچ 57رنز سے جیت کر پاکستان کے لیے سیمی فائنل کھیلنے کی راہ بھی ہموار کی، کیونکہ اس شکست کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز کے پوائنٹس کم ہوئے اور پاکستان کے زیادہ۔
اب ذرا تصور کریں کہ اگر اُس دن آسٹریلیا ہار جاتی تو کیا ہوتا؟۔ یقینی طو ر پر پاکستان سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ بلکہ ویسٹ انڈیز ہی یہ معرکہ کھیل رہا ہوتا اور پھر سب سے بڑھ کر کپتان عمران خان کے پاس عالمی کپ جیتنے کا کریڈٹ بھی نہیں آتا۔
Discussion about this post