سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول از خود کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل خالدجاوید سے دریافت کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کو گزشتہ سماعتوں کے دوران دی گئی ہدایات سے باخبر کیا۔ جس پر اٹارنی جنرلکا کہنا تھا کہ فی الحال تو نہیں لیکن وہ اس حوالے سے وزیراعظم سے ہدایت لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس سانحے میں چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ اصل میں کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تن خواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے،نیچے والے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اے پی ایس کا واقعہ سیکوریٹی کی ناکامی تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ تمام غلطیاں قبول ہیں۔ ان کے مطابق دفتر چھوڑ ددیں گے لیکن کسی کا دفاع نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ یہ سنگین نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کیا جائے گا۔ جس پر وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت دی گئی۔ جو سپریم کورٹ کے بینچ کے روبرو ہوئے۔ عدالت میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے ہیں۔ آپ حکم دیں، ہم ایکشن لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں۔ دنیا کی چھٹی بڑی طاقت ہے۔ وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت نے دریافت کیا کہ آپ نے کیا کیا؟ انہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ وزیراعظم صاحب آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھا ہے؟ انہوں نے ہمارے بچوں کو ذبح کیا، ان کا جو دل کیا وہ بچوں کے ساتھ کرتے رہے اور کوئی روکنے والا نہیں تھا؟
عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت متاثرہ والدین کا موقف سنے اور ملوث افراد کے خلاف اقدامات پورے کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہمارے دوست کون اور دشمن کون ہیں، جس وقت یہ سانحہ ہوا اُس وقت وہ حکومت میں نہیں تھے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں مدعے پر رہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ پاور میں ہیں اور آپ کی حکومت ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو میں سانحہ اے پی ایس کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد اور ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے حکومت کو چار ہفتوں کی مہلت دے دی۔ ساتھ ہی اس کی رپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیاجس پر وزیراعظم عمران خان کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول اور تحقیقات
16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 144بچوں سمیت 150سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔ جس کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔اس دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بھی بنا۔ جس میں واقعے کو سیکوریٹی کی ناکافی قرار دیا گیا تھا۔2015میں سپریم کورٹ نے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں بنایا گیا تھا۔جس میں 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک اسکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کو روانہ کی گئی تھی۔
Discussion about this post