ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں انگلینڈ اور نیوز ی لینڈ آج مدمقابل ہورہے ہیں۔ یہ وہی دونوں ٹیمیں ہیں جو ایک روزہ میچوں کے عالمی کپ کے فائنل میں بھی ٹکرائی تھیں، جہاں ایک یقینی فتح سے بین اسٹوکس کی دھواں دھار اور بہادری سے آراستہ بیٹنگ نے نیوزی لینڈ کو محروم کردیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اس ایونٹ میں نیوزی لینڈ نے ماسوائے پاکستان کے کسی اور ٹیم سے شکست نہیں کھائی۔
دوسری جانب ایون مورگن کی قیادت میں ایک بار پھر انگلش ٹیم پرعزم ہے کہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی بھی فاتح بن کر گھر لوٹے گی۔ کرکٹ پنڈتوں کے مطابق دونوں ہی ٹیمیں تگڑی ہیں لیکن نیوزی لینڈ کو اس اعتبار سے انگلش ٹیم پر سبقت حاصل ہے کہ وہ ایک ایسی ٹیم ہے، جس کے فیلڈرز کم و بیش 40سے 50رنز اپنی غیر معمولی فیلڈنگ سے بچالیتے ہیں اور پھر کیوی کپتان کین ولیم سن، ایک ’کیلکولیٹ پلیئر‘ تصور کیے جاتے ہیں، جنہیں اپنے بالرز کا استعمال بخوبی کرنا آتا ہے۔ درحقیقت آج مقابلہ دونوں کی بالنگ کا ہوگا۔ کیونکہ انگلش بالرز بھی ’فل فارم‘ میں ہیں۔ وہیں کیوی بالرز نے بھی اب تک ہونے والے مقابلوں میں مخالف ٹیموں کے لیے مشکلات ہی کھڑی کی ہیں، ٹرنٹ بولٹ کی کاٹ دار تیز بالنگ بلے بازوں کے قدم اکھاڑرہی ہیں۔ جو اب تک 11کھلاڑیوں کا شکار کرکے اس ٹورنامنٹ کے دوسرے کامیاب بالرز ہیں۔ اسی طرح ٹم ساؤتھی بھی درمیان میں آکر ٹیم کے لیے ’بیک تھرو‘ دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر کیوی اسپن بالنگ میں سینیٹرز اور سوڈھی ہیں، وہیں انگلش اسپنرز معین علی اور عادل رشید کی جادوگری سے بھری بالنگ بلے بازوں کو چکمہ دے جاتی ہیں۔نیوزی لینڈ بالرز کے لیے جوز بٹلر کو سب سے پہلے قابو کرنے کا امتحان ہوگا۔جو اس ایونٹ کے 5میچوں میں 240رنز بنا کر بابر اعظم کے بعد دوسرے کامیاب بلے بازقرار دیے جاتے ہیں۔ جوز بٹلر نے جس برق رفتاری کے ساتھ جنوبی افریقا کے خلاف سنچری اسکور کی،وہ کیوی ٹیم کے لیے اس اعتبار سے بھی خطرناک ہے کہ اگر سیمی فائنل میں اُن کا بلا پھر چل گیا تو وہ مخالف بالنگ لائن کے حلیہ بگاڑ سکتے ہیں۔ کیوی ٹیم کے بلے باز ایونٹ میں انفرادی پرفارمنس تو مارٹن گپٹل کی ہی ایک اننگ کی صورت میں سامنے آئی لیکن پوری ٹیم مجموعی طور پر اسکور میں اپنا حصہ ڈالتی آرہی ہے۔یعنی بیٹنگ میں بھی دونوں کا پلڑا بھاری ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو نیوزی لینڈ اب تک 7جبکہ 12 ٹی ٹوئنٹی میچز انگلینڈ سے ہار چکا ہے۔توقع تو یہی ہے کہ اس بار بھی دونوں ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلہ ہوگا۔ نیوزی لینڈ گزشتہ عالمی کپ کی طرح اس بار کوئی غلطی کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس کی خواہش ہوگی کہ ٹیسٹ چمپین شپ کے بعد اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی سرخرو رہے وہیں عالمی کپ کی ہار کا بدلہ بھی انگلش ٹیم سے چکتا کردے۔
Discussion about this post