سہیل اصغر۔۔ ایک عہد جو تمام ہوا۔ جو اپنے مخصوص لب و لہجے اور کردار میں ڈوب کر اداکاری دکھاتے۔ جنہوں نے جو کام کیا، وہ پرستاروں کے دلوں کو چھو گیا۔ 1978میں ریڈیو پاکستان سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اور پھر تھیٹر کے ساتھ ساتھ ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ بھلا کون ذہنوں سے کھرچ سکتا ہے اُن کا ڈراما سیریل ’پیاس‘ جس میں وہ اپنی اداکاری کے عروج پر نظر آئے۔ اور پھر خواہش میں وہ اپنے جوبن پر نظر آئے۔
سہیل اصغرکو اصل شناخت جس ڈرامے نے دی وہ ’چاند گرہن‘ تھا۔ ان کا ادا کیا ہوا مکالمہ ’ہم مالک ہیں اس زمین کے ہمارے حکم کے بغیر چڑیا پر نہیں مر سکتی‘ غیر معمولی طور پر شہرت پاگیا۔ جہانیاں شاہ کے کردار میں جیسے انہوں نے ڈوب کر فنکاری دکھائی۔سہیل اصغر ’چاند گرہن‘ کے بعد بھی کئی اور ڈراموں میں کام کیا۔ ان میں ’ننگے پاؤں‘ میں ایک بار پھر چھا گئے۔ یہی نہیں لاگ، حویلی، ریزہ ریزہ، دکھ سکھ اور کاجل گھرکے علاوہ وہ مختلف ٹی وی چینلز کے کسی نہ کسی ڈراموں میں ضرور نظر آتے۔
ریڈیو، اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلموں میں بھی جھلک دکھائی۔ 2003میں اُن کی پہلی فلم ’مراد‘ سنیما گھروں کی زینت بنی۔ جبکہ اگلے ہی سال انہوں نے ’ماہ نور‘ میں بھی کام کیا۔ جس کے بعد اُنہوں نے زیادہ تر توجہ ٹی وی ڈراموں پرمرکوز رکھی۔ سہیل اصغر گزشتہ ڈیڑہ برس سے ناسازی طبیعت کی بنا پر شوبزنس سے دور تھے۔ جبکہ ایک ہفتے سے لاہور کے اسپتال میں زیر علاج بھی تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سہیل اصغر اپنی برجستہ، بے ساختہ اور فطرت سے قریب اداکاری کی بنا پر ہمیشہ پرستاروں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
Discussion about this post