ڈاکٹر عرفان حلیم ایک شفیق اور ہمدرد مسیحا۔ برطانیہ میں جب سے کورونا وبا کا پھیلاؤ بڑھا تو ڈاکٹر عرفان حلیم نے دن و رات ایک کرکے مریضوں کو اس بیماری سے دور رکھنے کے لیے ان تھک محنت کی۔ انسان دوستی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی کہ وہ 4ماہ تک اپنے پیارے پھول جیسے 4بچوں اور شریک سفر سائلہ سے دور رہے تاکہ کورونا مریضوں کا علاج کیا جاسکے۔ ہر لمحے وہ ان مریضوں کو جینے کی آرز و دیتے۔
ڈاکٹر عرفان حلیم کی اسی نگہداشت اور توجہ کے باعث کئی برطانوی مریض کورونا کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ جو ہر اعتبار سے ڈاکٹر عرفان حلیم کو اپنا محسن تصور کرتے۔ جنہوں نے اپنی خوشیاں قربان کرتے ہوئے ہر وقت ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ترجیح دی۔ 25سالہ میڈیکل کیرئیر کے دوران وہ کورونا وبا کو اپنی زندگی کا بدترین دور قرار دیتے لیکن اس کے باوجود لندن کے اسپتال میں جان توڑ کوشش کرتے کہ کورونا مریض کو کسی صورت موت کے منہ تک نہ جانے دیں۔اب یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ رواں برس ستمبر میں اُنہیں خود کورونا کی تشخیص ہوئی۔ جنہیں فوری طور پر لندن کے اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرادیا گیا لیکن ہر دن ان کی حالت تشویش ناک حد تک بگڑتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا کہ ڈاکٹر عرفان حلیم کو دل اور پھیپھڑوں کو عارضی طور پر کام کرنے کی مشین کا سہارہ دیا گیا۔ یہ علاج COVID-19 کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو وینٹی لیٹر کی مدد سے بھی اپنے لیے سانس نہیں لے سکتے۔بہرحال ڈاکٹر عرفان حلیم کی سانسوں کی لڑیاں اب ٹوٹ ہی گئیں۔ جن کے انتقال پر ہر شخص اداس ہے۔ بیشتر برطانوی شہریوں کا کہنا ہے کہ اس قدر ہمدرد اور محسن شخص کا یوں اچانک چلے جانا واقعی دل رنجیدہ کردیتا ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر عرفان حلیم ہر ماہ 300کورونا مریضوں کو دیکھتے تھے۔ڈاکٹر عرفان حلیم کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ جو والد کے یوں اچانک چلے جانے پر اداس ہیں۔
Discussion about this post