قومی کرکٹ ٹیم کے عبوری ہیڈ کوچ عاقب جاوید نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کی۔ عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ جب ٹیم توقعات کے مطابق نہیں کھیلتی تو سب سے زیادہ دکھ خود کھلاڑیوں کو ہوتا ہے۔240 رنز کا دفاع کرنا ہو تو وکٹیں لینا ہوتی ہیں اور اٹیک کرنا ہوتا ہے۔ ٹیم کو بنانے میں سوچ تھی کہ بہترین ٹیم بنائیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ کھلاڑی کچھ کر کے نہیں آئے، یہ حقیقت ہے کہ ٹیم پرفارمنس نہیں آرہی ہے۔ عاقب جاوید کا مزید کہنا تھا کہ 25 میچز والے کو کہتے ہیں کہ انہوں نے پرفارم نہیں کیا، بہتری تو لانی ہے، اس پروسس کو کوئی روک نہیں سکتا،سلیکشن کمیٹی کا کام بہترین کھلاڑی کھلانا ہے، بھارتی ٹیم بہت تجربہ کار تھی۔ ان کے مطابق یہ نہیں ہوسکتا کہ ہارنے پر پوری ٹیم بدل دیں اور انڈر 19 کو کھلادیں، بھارت کے خلاف پریشر کو اچھی طرح ڈیل نہیں کررہے، بھارت کے علاوہ کسی اور سے ہارتے تو شاید اتنی باتیں نہ ہوتیں۔
شاہین،نسیم اور حارث بہترین باؤلر ہیں، بابر اعظم کے متبادل ہمارے پاس کیا آپشن ہے؟ عاقب جاوید کہتے ہیں کہ اگر بھارت کے خلاف پاکستان 300 کے قریب اسکور بنا لیتا تو اچھا مقابلہ ہو سکتا تھا۔ جب اچھا ٹوٹل نہ ہو تو بولرز کو زیادہ اٹیکنگ جانا پڑتا ہے۔ صائم ایوب اور فخر زمان کی عدم موجودگی سے فرق پڑا۔ سفیان مستقیم اور عرفان نیازی کا ون ڈے کے حوالے سے ایکسپوژر نہیں تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ون ڈے میں 7بیٹرز اور 4 بولرز کا کمبی نیشن کھلایا جاتا ہے، اور چونکہ صائم ایوب بیٹنگ کے ساتھ کچھ اوورز بھی کروا سکتے تھے، اسی لیے ان کی جگہ خوشدل شاہ کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ عاقب جاوید نے بابر اعظم اور شاہین آفریدی کو ٹیم کے سب سے تجربہ کار کھلاڑی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے اپنی بہترین دستیاب ٹیم میدان میں اتاری تھی۔ انہوں نے سعود شکیل کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جگہ محنت سے بنائی۔
Discussion about this post