سپریم کورٹ نے پاکستانی صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل پر از خود نوٹس لیا اور آج ہی 5 رکنی بینچ بنا کر سماعت بھی کی۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری داخلہ، خارجہ اور اطلاعات کو نوٹس بھی جاری کیے۔ اسی طرح ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر کو بھی نوٹس جاری کیے گئے۔ 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
آج سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پاکستان میں ارشد شریف کے قتل کا فوج داری مقدمہ کیوں درج نہیں ہوا؟ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوئی تو پاکستان میں کیا تحقیقات ہوں گی؟ اس موقع پر سیکریٹری داخلہ کا موقف تھا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لے کر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہو گا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے معلوم کیا کہ کیا مقدمہ درج کرنے کا یہ قانونی طریقہ ہے؟ عدالت عظمیٰ نے تو ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت کے علم میں لائے کہ جب یہ رپورٹ آئی تو وزیرداخلہ فیصل آباد میں تھے۔اُن کے دیکھنے کے بعد رپورٹ عدالت عظمیٰ کو دی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آج ہی جمع کرائیں تاکہ بدھ کو اس پر سماعت ہو سکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ مشکوک انداز میں ارشد شریف کا کینیا میں قتل ہوا، وزارتِ خارجہ نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟ سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کی کینیا کے صدر سے گفتگو ہوئی ہے، کینیا میں پاکستانی ہائی کمشنر متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں۔ عدالت نے بدھ تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر آج ہی درج ہو۔
Discussion about this post