ارشد شریف قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ جمع کرادی گئی ہے جس میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مقتول صحافی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت موت کی نیند سلایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنے والے خرم کے بیانات میں تضاد ہے۔اسی طرح کینیا پولیس نے اس معاملے میں کوئی تعاون نہیں کیا۔ ارشد شریف کو 20 جون 2022 کو متحدہ عرب امارات کا ویزا جاری ہوا جو کہ 18 اگست 2022 تک کے لیے تھا۔ مقتول صحافی کینیا گئے تو ان کے ویزے میں 20 دن باقی تھے۔ انہوں نے دوبارہ ویزے کے لیے درخواست دی لیکن وہ نامنظور کردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک گولی کمر کے اوپری حصے میں لگی جو کہ کم و بیش 6 سے 8 انچ نیچے لگی جو سینے کی جانب سے باہر نکلی۔ اس زخم سے یہ اندازہ لگایا مشکل نہیں کہ گولی قریب سے ہی چلائی گئی۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بتاتی ہے کہ ارشد شریف، وقار احمد کے گیسٹ ہاؤس میں 2 مہینے اور 3 دن تک رہے۔ وقار احمد کے کینین پولیس اور وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مراسم تھے۔ وقار کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد پولیس نے ارشد کا آئی فون، آئی پیڈ، پرس، 2 یو ایس بیز حوالے کیں،ان میں سے آئی فون اور آئی پیڈ اس نے نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر کو دیا۔ اسی طرح پاکستانی ہائی کمیشن افسرز کو اہم ثبوت اور شواہد ملے۔ ان میں 2 موبائل، ایک کمپیوٹر اور ارشد شریف کی ایک ڈائری شامل تھی۔ یہ چیزیں مقتول صحافی کے کینیا میں استعمال میں رہیں۔
وقار احمد نے ابتدا میں سی سی ٹی وی دینے پر رضامندی ظاہر کی لیکن پھر وہ مکر گیا۔ وقار کا کہنا تھا کہ وکیل اور بیوی نے فوٹیج نہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ رپورٹ میں وقار کے چھوٹے بھائی خرم کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ خرم کا کہنا تھا وہ کھانے کے بعد ارشد شریف کو ساتھ لے کر نکلا ۔ راستے میں انہیں سڑک پر پتھر نظر آئے جس پر خرم نے ارشد کو بتایا کہ یہ ڈاکو ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے ان پتھروں کو جب پار کیا تو گولیوں کی آوازیں آئیں۔ خرم کا دعویٰ تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ ان میں سے ایک گولی ارشد شریف کو بھی لگی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کسی میں کئی غیرملکی کردار اہمیت رکھتے ہیں۔ خرم اور وقار کا کردار مشکوک اور مزید تحقیق طلب ہے۔
Discussion about this post