ماڈل گرل اور گلوکار آیان علی نے سلسلہ وار ٹوئٹس میں مولانا طارق جمیل سے منسوب ایک واقعہ شیئر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ 2015 میں دو درجن سے زائد اخبارات اور جرائد میں خبر شائع ہوئی، جس کا موضوع تھا ” آیان علی کا مولانا طارق جمیل سے رابطہ ” ۔ یہ خبر کیا تھا کہ الف لیلیٰ کی داستان تھی۔ جو ایک سپرماڈل کا ایک مولانا کے ہاتھ پر تائب ہونا اور رونا دھونا بیان کرتی تھی۔ آیان علی نے اس واقعہ کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اُن دنوں کی بات تھی جب وہ لاہور، کراچی، اسلام آباد میں اپنے خلاف قائم ان گنت جعلی مقدمات بھگت رہی تھیں اور اس سلسلے میں کم و بیش ہر دن ہوائی سفر کا سامنا کرنا پڑتا۔ انہی میں سے ایک دن آیان علی لاہور ائرپورٹ پر فلائٹ کا انتظارکررہی تھیں کہ ایک نوجوان نے اُن کی سیکوریٹی سے آیان علی تک رسائی چاہی۔ نوجوان چہرے سے مذہبی رحجان کا حامل دکھائی دیا۔
2015 کی بات ہے قریب دو درجن اردو اخبارات و جرائد میں ایک خبر چھپی، جس کا موضوع تھا
"ایان علی کا مولانا طارق جمیل سے رابطہ”
یہ خبر کیا تھی الف لیلی کی ایک داستان تھی!
جو ایک سپر ماڈل کا ایک مولانا کے ہاتھ پر تائب ہونا اور رونا دھونا بیان کرتی تھی
آئیے آج اس قصے کی حقیقت جانیے /1 pic.twitter.com/J3NTzXP8ix— Ayyan (@AYYANWORLD) August 8, 2022
آیان علی کا رحجان خود بھی مذہب کی جانب تھا، اسی لیے انہوں نے نوجوان کو ملاقات کا موقع دیا۔ نوجوان نے فوراً خود کا تعارف مولانا طارق جمیل کے قریبی کے طور پر کرایا۔ اس نوجوان نے بغیر وقت ضائع کیے بتایا کہ یہ اُس کی خوش قسمتی ہے کہ اُس کی آیان علی سے ملاقات ہو گئی کیونکہ اُس نے مولانا طارق جمیل کو کئی مرتبہ آیان علی کے لیے زار و قطار دعائیں مانگتے دیکھا ہے اور یہ کہتے سنا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ خدا اس کی مشکلیں آسان فرمائے۔ آیان علی کے مطابق سچ پوچھیے تو ایک ایسے وقت میں جب اُن کےخلاف غلیظ ترین کردار کشی کی مہم ایک قومی مشغلہ بن گیا تھا۔ یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی عالمِ دین اُن کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے۔ آیان علی نے اس نوجوان سے کہا کہ جب بھی اُس کی مولانا سے ملاقات ہو وہ اُن کا بے حد شکریہ ادا کرے۔ جواباً اُس نوجوان نے کہا کہ مولانا اِس وقت حرمین شریفین میں ہیں اور اگر چاہیں تو وہ آیان علی سے اُن سے فون پر بات کروا سکتا ہے تاکہ وہ خود اُن کا شکریہ ادا کریں۔ مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کرآیان علی نے حامی بھرلی۔
نوجوان نے کوئی نمبر ملایا مگر وہ اٹینڈ نہ ہوا۔ اِس پر اُس نوجوان نے ایک ٹیکسٹ میسج کے ذریعے مولانا کو آگاہ کیا کہ وہ اس وقت آیان علی کے ساتھ ہے۔ ٹیکسٹ میسج جانے کے قریب نصف منٹ کے اندر اندر مولانا کی کال آ گئی۔ اُس نوجوان نے فون آیان علی کے حوالے کیا تو آیان علی نے مولانا کا غائبانہ دعاؤں کے لیے شکریہ ادا کیا اور مزید دعاؤں کی درخواست کی۔ جواباً مولانا نے بتایا کہہ کہ آیان علی مسلسل اُن کی دعاؤں میں شامل ہیں اور وہ اُن کے انتہائی خیر خواہ ہیں۔ اس کے بعد مولانا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آیان علی اُن کی حرمین شریفین سے واپسی پراُن سے کراچی میں ملاقات کریں۔ آیان علی کے مطابق وہ زیادہ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ اسی لیے مولانا سے کوئی وعدہ کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام کیا۔ آیان علی کا کہنا ہے کہ مولانا ملاقات پر بضد تھے۔ بحالت مجبوری آیان علی نے یہی کہا کہ واپسی پر اس معاملے پر کورڈی نیٹ کرلیاجائے گا لیکن مولانا طارق جمیل پر بھی راضی نہ ہوئے۔ جنہوں نے آیان علی کے نمبر کا مطالبہ کردیا۔ جس پر ماڈل نے اپنا نہیں اسٹاف کے ایک رکن کا نمبر دے دیا۔
آیان علی کے مطابق دھچکا اُنہیں اگلے روز لگا جب یہ مختصر نجی گفتگو انتہائی ڈرامائی انداز میں کئی اخبارات کی زینت بنی۔ اخبارات میں چھپنے والی خبر کے مطابق آیان علی، مولانا سے گفتگو کے دوران اشک بار رہیں ، توبہ کرتی رہیں اور اپنی نمازوں، روزوں اور تلاوت کا حساب دے کر خود کو اچھا مسلمان ثابت کرتی رہیں۔ آیان علی کہتی ہیں کہ یہ مکمل لغواور جھوٹ پر مبنی خبر تھی۔ وہ توبہ کے لیے کسی مولانا کے طلب کار نہیں تھیں ار ناہی ہیں۔ آیان علی کے مطابق انہوں نے مولانا کو ایک مذہبی شخصیت جان کر احترام ضرور دیا تھا لیکن انہوں نے اسے بے ڈھنگی نجی تشہیر کے لیے استعمال کیا۔ یہ وہ طرز عمل تھا جو صدیوں سے مذہبی جذبات سے مغلوب لوگوں کا اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس واقعے کے کچھ ہفتے بعد مولانا طارق جمیل ، حرمین شریفین سے واپس پاکستان تشریف لائے اور پھر آیان علی کے نمبر پر مسلسل کالز کرتے رہے۔آیان علی کا کہنا ہے کہ وہ جان چکی تھی کہ مولانا طارق جمیل کی فطرت کو، اسی لیے انہوں نے مجبوراً ان کا نمبر بلاک کردیا۔ آیان علی کے مطابق جو انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں وہ علما کے لیے دل میں خاص احترام ہے۔ مولانا طارق جمیل کا احترام بطور عالم کیا۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف ٹرولنگ ہوتی دیکھ کر اُن کا ساتھ بھی دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اٰس مسند کی تضحیک نہیں چاہتی تھیں۔ جس پر مولانا براجمان تھے مگر آج جب انہوں نے ایک ایسے شخص کی حمایت میں کزب بیانی کی جو اپنی سیاست میں اسلام کا توہین آمیز استعمال جائز سمجھتا ہے تو وہ اس مسند سے خود ہی برخاست ہو گئے، جس کا اعلان تبلیغی جماعت نے کر دیا ہے۔
آیان علی مزید لکھتی ہیں کہ اب مولانا کی کرم فرمائیوں سے قوم خصوصاّ خواتین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ افسوس کہ حبِ جاہ، نمود و نمائش اور بادشاہوں کے قرب نے ایک عالم کا یہ انجام کیا۔ شاید اسی لیے امامِ اعظم نے علما کو ان فتنوں سے دور رہنے کے لیے کہا تھا۔
Discussion about this post