قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ اس وقت آتا جب بل پیش کیا جاتا، سب سے پہلے حکومت مشاورت کرتی ہے پھر کابینہ منظوری دیتی ہے لیکن یہ بل ابھی کابینہ میں بھی نہیں گیا۔ آرٹیکل 8 اور 199 سے متعلق تجاویز تھیں، مسودہ لانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن مسودہ فائنل ہوتا تو سامنے لایا جاتا، پارلیمان کو آئینی ترامیم کا اختیار ہے۔ 1973سے لیکر 2009تک کھلواڑ کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم پاس کی گئی۔ تعصب کی عینک سائیڈ پر رکھ کر آگے چلیں۔ وزیرقانون کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے چینی کے ریٹ کا تعین نہیں کرنا، چیف جسٹس نے نہیں کہنا کہ کون سی پارٹی کیسے چلے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی عدالت کی شکل کیا ہوگی، آئینی عدالت میں 7 سے 8 ججز ہوں جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہوگی اور آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے۔ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ کمیشن میں 6 ججز، چار اراکین پارلیمنٹ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے اور اپوزیشن سے کہتا ہوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
Discussion about this post