قائم مقام گورنر ملک محمد احمد خان نے اس بل پر دستخط کردیے۔ یاد رہے کہ بل صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں، اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دے کر بل کے خلاف احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔ اس موقع پر صحافیوں نے احتجاج کیا تو حکومت نے بل مؤخر کرنےکی تجویزرد کردی تھی ۔ بعد ازاں صحافتی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیداران نے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر سے ملاقات کی۔ جس میں اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت بل آزادی اظہار کا گلا دبانے کی کوشش ہے۔ گورنر پنجاب سلیم حیدر نے کہا کہ متنازع شقوں پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا، بل پر پہلے بھی مشاورت ہونی چاہیے تھی، وہ مشاورت کے بغیر دستخط نہیں کریں گے۔ صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی صحافیوں کے ساتھ دھوکا کیا، گورنر کو منصوبے کے تحت چھٹی پر بھیج کر قائم مقام گورنر سے دستخط کرائے گئے۔ پیپلز پارٹی بظاہر صحافیوں کے ساتھ تھی اور اندر سے حکومت سے ملی ہوئی تھی۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہتک عزت کا قانون لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست صحافی جعفر احمد یار اور شہری راجہ ریاض نے دائر کی۔ جس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب اور پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔
Discussion about this post