سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھ اکہ چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض ہے درخواست ہے کہ چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہ بنیں۔ جس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت کیسے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے؟ آپ کی درخواست قابلِ احترام ہے، چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے اقدام کیا گیا؟ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956 میں بھی مشاورت کا نہیں تھا، یہ ایک پریکٹس ہے، کمیشن کے لیے جج چیف جسٹس نامزد کرے گا، جانے انجانے میں ججوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، حکومت نے کمیشن میں ضمانت اور فیملی میٹرز کو بھی ڈال دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے کیس میں جیسے آپ کو بتایا اگر ہم سے مشورہ کرتے تو آپ کی مدد کرتے، آئین کا احترام کریں، ہمارے بغیر پوچھے عدلیہ کے امور میں مداخلت کریں گے تو۔۔۔۔!
Discussion about this post