” ڈراما سیریل ” بختاور” کسی خاتون کی زندگی سے متاثر نہیں اور یہ بھی نہیں کہ یہ محض فرحین اشتیاق کی زندگی پر بنا ہے۔ یہ کردار ان خواتین سے متاثرہے جنہوں نےزندگی کے کسی نہ کسی مقام پر مختلف مجبوریوں کی بنا پر پیشہ ور زندگی میں حلیے بدلے۔”
ہم ٹی وی سے نشر ہونے والے مقبول ڈرامے ” بختاور” کی مصنفہ نادیہ اختر نے ” تار” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ ان کا ڈراما کسی کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرامے کا بنیادی موضوع ہراسانی کے گرد مشکل فیصلے لینا ہے، ایک عورت کو بطور معاشرے میں کن مشکلات کا سامنا ہے، اسے درپیش چیلنجز کے دوران کہاں اور کس طرح ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مصنفہ نادیہ اختر کہتی ہیں کہ ڈرامے کے چند کلپس پڑوسی ملک کی خواتین کی اور مصر اور مراکش جیسے مسلم ممالک کی عکاسی کررہے ہیں ۔ چینل نے چونکہ کسی ایک خاص کردار سے انسپریشن نہیں لی، نہ ہی کہانی کسی فرد واحد کی زندگی میں ہونے والے واقعات پر مبنی ہے۔ اسی لیے شاید کاپی رائٹس لینے اور کسی سے رابطہ کرکے ان کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
نادیہ اختر نے مزید کہا یہ ممکن ہے کہ بہت سی خواتین کو واقعات اور کرداروں سے مماثلت محسوس ہوں کیونکہ مسائل معاشرتی ہیں اور خاص طور سے لوئر مڈل کلاس اور قدرے کم تعلیم یافتہ خواتین کے روز مرہ مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ مردوں کی دنیا میں خاتون کا لباس اور حلیہ کیوں اہم بنتا جارہا ہے۔ نادیہ اختر کہتی ہیں کہ افسوس کے ساتھ ہمارا معاشرہ ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا کہ ہم عورت کو ہرطرح کےشعبے میں کام کرنے کے لئے وہی فاصلہ مہیا کریں، جو مردوں کو میسر ہیں۔ تقریباً تمام بڑے چھوٹے شہروں میں ایسے بہت سے علاقے ہیں ، جہاں کام کرنے کا ماحول عورت کے لیے اتنا دوستانہ اور ساز گار نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ سج سنور کر نکلنے والی، خوش لباس خواتین پر آج بھی ” لوز کریکٹر ” کا ٹھپہ لگایا جاتا ہے، ان کے لباس اور لپ اسٹک کو معاشرے کی بے راہ راوی اور حراسگی کے واقعات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق برقعہ اور پردہ بھی خواتین کی ڈھال نہیں بن پاتا تو وہ اپنے حسن و جمال کو چھپانے کی بجائے، سخت گیر اور بے کشش نظر آنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔
مصنفہ نادیہ اختر کا خیال ہے کہ ” بختاور” ایک مضبوط قوت ارادی کی مالک لڑکی کا کردار ہے جو قدامت پسند علاقے میں رہتی ہے، اس کے کچھ کر دکھانے کے عزم کو خاندان میں اور برادری میں سپورٹ کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج بھی بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں خود مختار اور ذہین عورت کو برداشت نہیں کیا جاتا، عورت کو دبانا اور نیچا دکھانا ہی مردانگی کی شان سمجھا جاتا ہے۔ رائٹر کا مزید کہنا تھا کہ سسپنس اور تھرل کو مدنظر رکھتے ہوئے بختاور کی اصل پہچان کو وقتی طور پر محلے اور کام کی جگہ چھپا کر رکھا گیا۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اکیلی عورت کے لیے کسی محرم کے بغیر باہر نکلنا یا اکیلے کرائے پر مکان لے کر رہنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لیے بختاور کو آسان لگا کہ وہ اپنی اصل شناخت چھپا کر رہے تاکہ لوگوں کی چبھتی نظروں اور سوالات سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔
نادیہ اختر کے مطابق معاشرے میں پدرانہ رویوں کے بدلنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کا انفلوئنس ہے جو آج کے دور کو پرانے دور سے کسی حد تک مختلف بناتا ہے ورنہ بنیادی سوچ تو وہی پرانی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ ایشوز میڈیا کے ذریعے پھیل جاتے ہیں، تبصرے ہوتے ہیں، پدرانہ رویوں پر مذمت بھی ہوتی ہیں۔ کسی حد تک شعور بھی آچکا ہے لیکن انفرادی طور پر کوئی خود کو بدلنے کو تیار نہیں۔ بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں لیکن عملاً کچھ خاص نہیں ہورہا، نصیحتیں کرنے والے، باتیں کرنے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، کہنے کو عورت جہاز بھی اڑا رہی ہے اور سیاست میں بھی حصہ لے رہی ہے لیکن اسکینڈلائز کرنے کے لیے مرد سے زیادہ آسان ٹارگٹ آج بھی عورت ہے۔
نادیہ اختر کے مطابق ذاتی بزنس کرنے والی، سیلون چلانے والی، ایئر ہوسٹس، ریسپشنسٹ، نرسز، شوبز سے وابستہ خواتین کو قابل عزت نہیں سمجھا جاتا، محض مرد نہیں، عورت بھی معاشرے میں پدرانہ رویے کے بڑھاؤ کی ذمہ دار ہے۔ بہو اور بھابھی کا انتخاب کرنا ہو تو لیڈی ڈاکٹر، ٹیچر یا گھریلو خاتون بھی قابل اعتماد اور باکردار گردانی جاتی ہے۔ عورت ہی عورت کے کردار پر کیچڑ اچھالتی ہے، رویے بدلنے کے لیے انفرادی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔
اس خبر سے متعلق مزید پڑھیں
Discussion about this post