وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ قائم قام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے سنایا۔ جس کے تحت خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلواسکتے۔ اسی طرح وہ اپنی جنس بھی تبدیل نہیں کراسکتے۔ فیصلے کے مطابق جنس کا تعلق انسان کی باہیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔ شریعت کسی کو نامرد ہوکر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ فیصلے میں سیکشن 2 این تھری کو خلاف شریعت قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا۔ جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔ فیصلے کے مطابق نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے۔ جنس کا تعین انسان کے جذبات سے نہیں کیا جاسکتا۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔ خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔ خواجہ سراؤں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔ عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کا سیکشن 3 اور سیکشن 7 بھی خلاف شریعت قراردیا۔ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا۔ وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کو تمام حقوق دینے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔
Discussion about this post