ڈالرز کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کار کمپنیز بھی آنکھ بند کرکے پرائس میں اضافہ ہی کرتی چلی جارہی ہیں۔ سوزوکی ہو ، ٹویوٹا یا پھر ہنڈا، سب کے ماڈلز میں ڈھائی سے سوا تین لاکھ سے سات لالکھ روپے تک اضافہ ہوا ہے، بات کی جائے سوزوکی کی تو یہ پاکستانیوں کی فیملی کار کہی جاسکتی ہے، پاکستان کا کون سا ایسا گھر نہ ہوگا ، جس نے اس کارمینوفیکچرر کا کوئی نہ کوئی ماڈل استعمال نہ کیا ہو۔
اب سوچیں کہ قیمت میں اضافہ تو کردیا گیا ہے لیکن کوالٹی اور اسٹینڈرڈ ایسا ہے کہ سوشل میڈیا پر صارفین غصے میں بھرے ہیں۔ جن کا ماننا ہے کہ اضافی رقم دینے کے باوجود انہیں گاڑی ملتی ہے تو اس کی باڈی اور اندرونی حصے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ ٹن ڈبوں سے تیار ہو۔ اس قدر ہلکی اور غیر معیاری پروڈکشن کہ سڑک پر دوڑاتے ہوئے یہی ڈر لگتا ہے کہیں گاڑی الٹ نہ جائے۔
انٹرائیر پوشن میں ترقی اور انووشن لانے کے بجائے اسے اور بیک ورڈ کردیا گیا ہے، اب جو 17 لاکھ روپے خرید کر آلٹو وی ایکس خریدے گا تو تصور کرلیں کہ اس کی کیا حالت ہوگی، صرف پاک سوزوکی نے ہی قیمتیوں میں اضافہ کیا ہے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ رہا ہے کہ سوزوکی ہو یا پھر ہنڈا یا پھر ٹویوٹا، ان کی پاکستان میں مونو پلی رہی ہے۔
کہا تو یہ بھی جاتا کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کمپنی کو ٹکنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا، حالیہ دنوں میں پاکستان میں کئی غیر ملکی کار ساز کمپنیز نے قدم رکھ دیا ہے۔ ان میں کیا ، چانگ آن ،پروٹون ، آئی سو گندھارا موٹرز اور ایم جی موٹرز نمایاں ہیں۔ اب یہاں پاکستانی خریداروں کو سب سے بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ انہیں طے شدہ وقت میں بھی گاڑی کی ڈلیوری نہیں ملتی، اب یہاں سوال یہ بھی ہے ایسا کیوں ہے ؟ اس حوالے سے مشاہدہ کریں تو پاکستان میں کئی طرح کے لوگ گاڑیاں بک کررہےہیں۔ ایک تو وہ جو 5 ، 10گاڑیوں کی بکنگ کرتے ہیں اور پھر ملتی ہیں تو اسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
دراصل یہ مافیا ہے جس کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ ان کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جو کمپنی سے ڈائریکٹ گاڑیاں بک کرتے ہیں۔ جن کی لائن سیٹ ہوتی ہیں اور پھر یہی کمپنی سے گاڑی لے کر اسے دو سے تین لاکھ روپے اوپر میں ان خریداروں کو فروخت کرتے ہیں جو فوری طور پر گاڑی کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ فیڈرل گورنمنٹ کے آڈٹ حکام نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو حال ہی میں بتایا کاریں بنانے والی کمپنیز کے پاس صارفین کا 150 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ پڑا ہے، لیکن وہ صارفین کو گاڑیاں ڈلیور نہیں کر پارہے ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ چار بڑی کمپنیوں نے اب تک کم از کم 50 ہزار گاڑیوں کی ایڈوانس بکنگ کر رکھی ہے جن کی ڈیلیوری بنتی تھی لیکن اب تک یہ اپنے اصل مالکوں تک نہیں پہنچیں۔ اس حوالے سے مینوفیکچرز کہتے ہیں کہ پارٹس کی درآمدات پر پابندی اور ڈالرز کی کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کی طرف سے نئی ایل سی نہ اوپن ہونے سے بھی پروڈکشن متاثر ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے مالکان کو ڈیلیوری میں تاخیر ہو رہی ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر برانڈ اور ماڈل کے اعتبار سے گاڑیوں کی ڈیلیوری کی مختلف تاریخیں دی جا رہی ہیں۔
گاڑیوں کے حصول میں مشکلات کی وجہ سے نئی گاڑی پر اون منی یعنی گاڑی کے حصول کے لیے قیمت سے الگ مانگی جانے والی رقم کا بزنس خوب پھل پھول رہا ہے۔ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ بڑے انوسٹرز گاڑیاں بک کرانے کے بعد ڈلیوری بڑے مزے سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اور پھر شو روم میں گاڑی کھڑی کردی جاتی ہے یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے ڈیلرز کے پاس ہی رہنے دیتے ہیں۔ اور جیسے ہی اون کے سلسلے میں بڑی رقم ملتی ہے تو فوری طور پر گاڑی فروخت کردی جاتی ہے ۔ اور سفر جیوئن بائیرز کررہے ہیں۔ جو مہنگے داموں بک کرنے کے باوجود مہینوں تک گاڑی سے محروم رہتے ہیں۔
پاکستان آٹو مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد وشمار بتاتے ہیں گزشتہ مالی سال دو ہزار بائیس کے دوران دو لاکھ اناسی ہزار 700 کاریں فروخت ہوئیں جو اس سے پچھلے مالی سال 2021 کے مقابلے میں چوون فیصد زائد ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہنڈا ، پاک سوزوکی اور ٹویوٹا انڈس کی سیل میں اضافہ ہوا ہے لیکن خریداروں کو جو گاڑیاں مل رہی ہیں بالخصوص سوزوکی کی تو اس پر کچھ نہ کہنا بہت کچھ کہنے کے مترادف ہے ۔
Discussion about this post