حنید لاکھانی نے پیر کو سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے اندرون سندھ کا سفر کیا تھا۔ کراچی واپسی پر تیز بخار ہوا تو ڈاکٹرز نے ڈینگی کی تشخیص کی ۔ بدھ کی رات سانس لینے میں تکلیف محسوس ہوئی تو وین ٹیلٹرز پر منتقل کردیا گیا۔ جمعرات کو 49 برس کے حنید لاکھانی نے زندگی کی آخری سانس لی اور سب کو اداس چھوڑ کر اُس راہ پر چل پڑے جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی ۔ حنید لاکھانی اقرا یونیورسٹی کے بانی چانسلر تھے جبکہ سندھ بیت المال کے سابق سربراہ بھی ۔ جس کے تحت وہ مختلف پسماندہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے کام میں نمایاں رہتے۔
اقرا یونیورسٹی حنید لاکھانی کی ان تھک محنت اور لگن کے باعث پاکستان کی بہترین نجی یونیورسٹی تصور کی جاتی ہے۔ حنید لاکھانی تدریس سے ہی نہیں وابستہ تھے بلکہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ کؑی برسوں سے تحریک انصاف سے تعلق رہا ۔ ان دنوں ان کی توجہ کا مرکز سیلاب زدگان کی امداد تھی۔ جبھی وہ اندرون سندھ کے دورے پر تھے ۔ جہاں وہ متاثرین کی مدد کرنے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ مسلسل تھکن اور خراب موسمی حالات کی بنا پر وہ بخار کا شکار ہوئے تھے۔
Discussion about this post