اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ لاپتا طلبہ کی بازیابی کے کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان کا کہنا تھا کہ لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، 11 مزید لاپتا بلوچ طلبہ کو بازیاب کرایا گیا، 9 افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں جبکہ 4 تاحال ٹریس نہیں ہوسکے اور 2 افراد افغانستان میں ہیں۔ اس موقع پر عدالت کی جانب سے طلب کیے گئے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی پیش ہوئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے تحت کام کررہے ہیں، مسلح جدوجہد کا سامنا کررہے ہیں۔ ریاست اخلاقی طور پر خود کو بالادست سمجھتی ہے تو ان کی جوابدہی زیادہ ہوتی ہے۔ نگراں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز اور کاؤنٹر ٹیرر ازم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، یہ لاپتا افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں۔ یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں، کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلا دیا گیا، کسی کو اُس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی۔ یہ کہتے ہیں اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں۔ دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں، 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی، مجھ سے صحافی نے پوچھا آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ریاست کو ہتھیار اٹھانے والے شہریوں سے الگ طریقے سے ڈیل کرنا چاہیے۔ اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی، بلاشبہ جنگ ہے، ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے نگراں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں۔ بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ بعد میں نگراں وزیراعظم کو عدالتی کمرے سے واپس جانے کی اجازت دے دی گئی ۔
Discussion about this post