ایران نے ایک نیا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ قانون کے مطابق خواتین کو اپنے بال مکمل طور پر ڈھانپنے ہوں گے اور آستین کلائیوں سے اوپر نہیں ہونی چاہیے۔ ان اصولوں کی خلاف ورزی پر جرمانے کیے جا سکتے ہیں، جن کی رقم تقریباً 20 ماہ کی تنخواہ کے برابر ہوگی۔ اگر 10 دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کیا گیا تو پاسپورٹ کی تجدید اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول پر پابندی جیسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک ایرانی یونیورسٹی میں حجاب قوانین کے خلاف احتجاج کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک طالبہ کو اپنے کپڑے اتارتے اور یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر نیم برہنہ حالت میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ واقعہ اسلامی آزاد یونیورسٹی کی ایک برانچ میں پیش آیا، جس کے بعد طالبہ کو یونیورسٹی کی سیکیورٹی نے گرفتار کر لیا۔ اس عمل کو ایران کے سخت حجاب قوانین کے خلاف بغاوت کے طور پر دیکھا گیا۔ جولائی میں ایرانی حکام نے تہران میں ترک ایئرلائنز کے دفتر کو اس وقت سیل کر دیا جب خواتین عملے نے لازمی حجاب قوانین کی پابندی سے انکار کیا۔
ایران کے حجاب قوانین کے خلاف تناؤ 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد سے جاری ہے، جو ستمبر 2022 میں اس وقت حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں جب انہیں حجاب نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس واقعے نے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا۔ اگرچہ مظاہرے بالآخر تھم گئے، لیکن کچھ خواتین اب بھی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوامی مقامات پر بغیر حجاب کے نظر آتی ہیں۔ ایرانی حکام نے حجاب قوانین کی خلاف ورزی پر سینکڑوں کاروبار، دکانیں، ریستوران، اور دفاتر بند کر دیے ہیں۔ 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران میں خواتین کے لیے حجاب لازمی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے یا قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Discussion about this post