اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے اس لارجر بینچ کی سربراہی کی۔ جس میں جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس بابرستار بھی شامل ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر ترین کا موقف تھا کہ انہوں نے متعلقہ مواد ریکارڈ پر لانے کے لیے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے دریافت کیا کہ خاتون جج کے خلاف قابل اعتراض ریمارکس کب دیے گئے ؟ خاتون جج کے پاس کون سا کیس ہے ؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 20 اگست کو ریلی سے خطاب کے دوران یہ کلمات ادا کیے۔ جج زیبا، شہباز گل کے ریمانڈ سے متعلق کیس سن رہی تھیں۔ بظاہر عمران خان انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا موقف تھا کہ اگر خاتون جج کو دھمکی دی گئی ہے اور اگر یہ ماحول ہوگا تو کام کیسے ممکن ہوگا؟ عدالت فیصلہ دے گی تو اس کےخلاف کیا تقریریں شروع کردیں گے؟ جو وزیراعظم رہا ہو، اُس سے ایسے بیان کی امید نہیں تھی۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اس دھمکی کے بعد خاتون جج کو اضافی سیکوریٹی دینے کو تیار ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی کے مطابق معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے ۔ یہ معاملہ صرف ماتحت عدالت کی جج کا ہی نہیں بلکہ سول بیورو کریسی اور پولیس کو ملنے والی دھمکیوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس موقع پر تمام ججوں نے باہمی مشاورت کے بعد سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے پر عمران خان کو 31 اگست کو طلب کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ آئندہ سماعت میں عمران خان کی تقاریر کا ویڈیو ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ جبکہ اس کیس کو سننے کے لیے 3 سے زائد ججوں کا بینچ بنانے کا معاملہ بھی چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔
Discussion about this post