ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 11 مارچ کو 1 بجے کے قریب جعفر ایکسپریس کے قریب آئی ای ڈیز کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔ دہشتگردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی۔ یہ جگہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ دہشتگرد کئی گروپوں میں تھے۔ ایک گروپ نے بچوں اور خواتین کو ٹرین کے اندر رکھا جبکہ باقی مسافروں کو دہشتگردوں نے باہر بٹھالیا۔ دہشتگردوں نے مسافروں کو 24 گھنٹے اپنے پاس رکھا۔ کچھ مسافروں کو بھاگنے کا موقع ملا تو ان پر دہشتگردوں نے فائرنگ کردی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ 12 مارچ کی دوپہر اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے آپریشن کی کمان سنبھالی اور یرغمالیوں کے درمیان موجود خودکش بمباروں کو اسنائپر کی مدد سے نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کو پھر بچ نکلنے کا موقع ملا اور دہشت گردوں کے نرغے سے نکل مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔ دہشتگردوں کو ہمارے اسنائپرز نے انگیج کیا۔ ان میں خودکش بمبار بھی تھے۔ انہوں نے ایف سی پوسٹ پر حملہ کرکے 3 اہلکاروں کو شہید کیا۔ دہشتگردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی، جن کی نگرانی کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بناکر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کا مرکزی اسپانسر بھارت ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ بھارتی پالیسی کا تسلسل ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ کے بعد اے آئی سے تیار کردہ جعلی ویڈیو بھارتی میڈیا نے چلائی۔ سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت کا سہارا لیتے ہوئے جعلی ویڈیوز بنائی گئیں۔ سوشل میڈیا وار فیئرز کو بھی بھارتی میڈیا لیڈ کر رہا تھا۔بولان میں پیش آںے والے واقعے میں بی ایل اے ملوث ہے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ یہ دہشتگردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کی جڑیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ دہشتگردوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ موجود تھا۔ دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔ دہشتگردوں کی افغانستان میں تربیت ہورہی ہے، انہیں اسلحہ افغانستان سے مل رہا ہے۔ بنوں واقعے میں بھی افغان دہشتگرد ملوث تھے۔ کچھ روز قبل مارا جانے والا ایک دہشتگرد بدرالدین افغان صوبے کے گورنر کا بیٹا تھا۔ افغانستان میں مقامی اور بین الاقوامی دہشتگردوں کو محفوظ ٹھکانے مل رہے ہیں۔ افغانستان سے ہونے والی کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ ہماری شمالی سرحد پر ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ جو گرد ہے، اس کے خلاف افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے، اگر آپ احاطہ کریں تو 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اتفاق رائے ہوا تھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا۔
Discussion about this post