پشاور میں افغان پناہ گزین کیمپ میں آنکھیں کھولنے والے معروف ناول نگار جمیل جان کوچائی نے اپنی کامیابی کا راز بیان کرتےہوئے دلچسپ داستان بیان کی ہے ۔ اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس پر انہوں نے دوسری جماعت کی ایک ٹیچر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے انگریزی زبان پر گرفت اپنی ٹیچر سوزین لنگ کی بدولت حاصل کی اور انہوں نے 20 سال کے دوران ٹیچر سے دوبارہ رابطے کے لیے کوششوں کا ذکر بھی کیا۔
جمیل جان کوچائی نے بتایا کہ ان کی پرورش ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں صرف پشتو اور فارسی بولی جاتی تھی۔ پشاور میں افغان پناہ گزین کیمپ میں رہنے کے بعد ایک سال کی عمر میں امریکا منتقل ہوئے۔ جہاں انہیں انگریزی سے لاعلمی کے دوران مشکلات کا سامنا رہا، کینڈر گارڈن میں اساتذہ کی بات نہ سمجھنے پر اکثر سزا بھی ملی۔
ناول نگار نے بتایا کہ والد کے پاس کام نہ ہونے کی صورت میں اکثر 1 سال کے دوران کئی اسکول تبدیل ہوئے ۔ جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی کا کافی نقصان ہوا، پہلی جماعت ختم ہونے کے بعد خاندان واپس افغانستان لوٹ گیا۔ جس کے بعد اسکول میں سیکھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی وہ ایک بار پھر بھول گئے۔
جمیل جان کوچائی نے بتایا کہ افغانستان کے شہر کابل منتقل ہونے کے بعد دوسری جماعت میں میری انگریزی اتنی کمزور ہوگئی کہ میں بہ مشکل حروف تہجی کے صرف 10 الفاظ ہی بول پاتا، میں دیگر طالب علم سے کافی پیچھے رہ گیا تھا، ایک بار پھر مجھے انگریزی سیکھنے کی ضرورت تھی۔ تاہم ایک بہترین ٹیچر کا انتظار اس وقت ختم ہوا، جب دوسری جماعت میں میری ملاقات مس لنگ سے ہوئی۔
Ms. Lung sat with me almost everysingle day after school, giving me extra lessons in reading and writing so I could catch up with the rest of the class. By the end of the year, I’d learned to read and write, and by third grade, I was winning awards for reading comprehension.
— Jamil Jan Kochai (@JamilJanKochai) August 14, 2022
انہوں نے بتایا کہ مس لنگ اسکول کے بعد تقریباً ہر ایک دن میرے ساتھ بیٹھتی تھیں، مجھے پڑھنے لکھنے کے اضافی اسباق دیتی تھیں تاکہ میں باقی کلاس کے ساتھ بات کر سکوں۔ سال کے آخر تک میں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا اور تیسری جماعت تک انگریزی زبان میں گرفت اس قدر مضبوط ہوگئی کہ میں نے انگریزی زبان کے کئی مقابلے بھی جیت لیے۔
مصنف جمیل جان کوچائی نے بتایا کہ انگریزی زبان پر ماہرات کا سفر یوں ہی رواں دواں تھا کہ ایک بار پھر خاندان کے امریکا ہجرت کرنے پر مجھے مس لنگ کو کھونا پڑا۔ میرا ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ میں نے کئی برسوں تک مس لنگ کی تلاش جاری رکھی، ہائی اسکول اور کالج سے لے کر گوگل اور سوشل میڈیا تک مس لنگ کو تلاش کیا، جو بے سود ثابت ہوا، میں ان کے نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھا۔
تاہم وقت نے ایک بار پھر کروٹ بدلی اور میرے صبر کا پھل اس وقت ملا جب میری کتاب 99 نائٹس ان لوگر منظر عام پر آئی، کتاب میں موجود عنوان ” لٹ حب ” میں مس لنگ کا ذکر بھی موجود تھا، جس کو پڑھ کر ایک شخص نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنا تعارف میری ٹیچرمسز سوسیزن لنگ کے شوہر کے طور پر کرایا۔
جمیل جان نے بتایا کہ برسوں بعد جب میں نے اپنی ٹیچر مسز لنگ کی آواز سنی تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا زارو قطار رو پڑا اور ان کا شکریہ ادا کرتا رہا۔
جمیل جان کوچائی کے مطابق عالمی وبا کے بعد میری ملاقات ان سے امریکا میں ہوئی، جو سات سال کی عمر کے بعد دوسری جماعت کی ٹیچر کو دوبارہ گلے لگانے کا ایک یادگار لمحہ تھا، جو بہت ساری باتیں، جذبات اور خوشی کے لمحات سے بھرپور تھے۔
جمیل جان نے کہا کہ میرے والد ہمیشہ پشتو میں کہا کرتے تھے کہ ہر بچہ ایندھن سے بھرا ہوا راکٹ ہے اور انہیں آسمان کی طرف اٹھانے کے لیے ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔ محترمہ لنگ، میرے لیے ایک چنگاری ثابت ہوئی۔
جو مجھے دیا گیا ان کا وقت، غور و فکر اور علم میری کامیابی کی ضمانت بنا۔
Discussion about this post