جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد میں آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت کے عنوان سے تقریب سے خطاب کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آئین کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں بلکہ یہ کتاب سب کی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ ارض وطن جدوجہد کے بعد قائم ہوا۔ آزادی کے بعد ہی ہمیں آئین کی ضرورت تھی۔ ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں،جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتی۔ غلط فیصلہ غلط ہی ہوتا ہے چاہے اکثریت کے ساتھ کیا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا، اس کے بیج بوئے گئے۔ نفرتوں کی وجوہ ہوتی ہیں، چھوٹی بات پر گھر تباہ ہوجاتے ہیں،چھوٹی بات پر پانی نہ ڈالیں تو ایسے مسئلے جنم لیتے ہیں۔ 1971میں قوم کا سر جھکا ہوا تھا، شرمندہ قوم تھی،فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیرنے ملک ٹوٹنے کا بیج بویا، جس سے نظریں نہیں چرانا چاہیے۔ آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا۔ میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی اہم ہوگی جو آئین میں لکھی ہے۔
Discussion about this post