لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دسمبر 2016 میں اے پی ایس کے واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق تھا۔ اُس وقت کے حالات بہت مختلف تھے اس وقت عملی طور پر سوات میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی تھی اور وہ نو گو ایریاز بن چکے تھے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ آج حالات ویسے نہیں، بلوچستان اور کے پی میں ہر جگہ حکومت کی رٹ ہے۔ لیکن ڈی آئی خان کے کچھ علاقوں میں رات کے وقت طالبان کا اثرو رسوخ ہوتا ہے۔ ، آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، جے یوآئی ،اے این پی اورپی ٹی آئی کی تشویش دور کی جائے گی، ریاست کے تمام اداروں کو آپریشن کی حمایت کرنی چاہیے۔ آپریشن کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیز اور اتحادیوں کو سیر حاصل بحث کا موقع دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایپکس کمیٹی میں کوئی اختلاف نہیں کیا، علی امین گنڈا پورنے دبے الفاظ میں آپریشن کی حمایت کی، آپریشن کا مرکز خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہوں گے، عزم استحکام آپریشن کےلیے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
Discussion about this post