چھبیس سالوں سے جدید دنیا سے رابطہ نہ رکھنے والا، جنگلوں میں جانوروں کا شکار کرنے والا اور گہرے گڑھے میں تن تنہا زندگی کاٹنے والا آخری قبائلی شخص بھی چل بسا۔ برازیل حکام کا کہنا ہے کہ مین آف دی ہول کہلایا جانے والا یہ قبائلی شخص 23 اگست کو اپنی جھونپڑی میں مردہ حالت میں پایا گیا، جھونپڑی میں کسی بھی قسم کی مداخلت یا مذمت کے نشانات نہیں تھے نہ ہی جسم پر تشدد کا کوئی نشان تھا۔
حکام کے مطابق 60 سالہ قبائلی شخص کی موت قدرتی تھی لیکن پھر بھی شخص کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔ مرنے والا شخص ایک قبائلی گروہ کا آخری فرد تھا، جس کے باقی کے 6 ارکان 1970 میں زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروپ اور مقامی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، جس کے بعد سے یہ شخص اکیلا ہی برازیل کی رونڈونیا اسٹیٹ کے ایمازون جنگل میں تنہا رہ رہا تھا، اس کی کسی بھی انسان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی سے رابطہ تھا۔ نام کیا تھا؟ کس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا؟ کون سی زبان بولتا تھا؟ کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔
جنگل میں گہرے گڑھے کھود کر جانوروں کا شکار کرنے اور اسی میں زندگی کاٹنے پر اس کا نام ‘مین آف دی ہول’ رکھا گیا تھا، 2018 میں برازیل کی مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ایجنسی فونائی کی جانب سے اس شخص کی پہلی ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں اس کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ فونائی کے مطابق ویڈیو کا مقصد مین آف دی ہول سے متعلق آگاہی دینا ہے تاکہ یہ اپنی زمین پر روایتی انداز میں آزادانہ طور پر زندگی گزارسکے، اسی لیے اس علاقے میں کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں تھی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کی جھونپڑی سے ملنے والی چیزوں سے پتہ چلتا ہے کہ آخری قبائلی شخص اناج کے لیے مکئی اور روا کی کاشت کرتا تھا جبکہ پھلوں میں پپیتا اور کیلے کھاتا تھا۔ شکار کے لیے بنائے گئے گڑھوں کی تہہ میں نوکیلی اور خار دار جھاڑیاں ڈالتا تاکہ شکار جال میں پھنسنے کے بعد باہر کا کوئی راستہ نہ ہو، اسی طرح یہی گڑھے خطرے کے وقت اس کے لیے چھپنے کی جگہیں تھیں۔
برازیل میں اب بھی تقریباً 240 قبیلے موجود ہیں جنھیں مقامی لوگوں، کان کنوں، درخت کاٹنے والوں اور کسانوں سے خطرہ ہے انہیں خطرات کے باعث یہ کوئی بھی شخص ان کے علاقے پر آتا ہے تو یہ قبیلے ان لوگوں پر حملہ کرکے انہیں مار دیتے ہیں۔
Discussion about this post