جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت سب سے بڑی خودرکاوٹ ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوبارہ بلانا غیر آئینی ہوگا، مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں، بات نہ مانی گئی تو فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔26 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی،کوشش یہ ہےکہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، سیاست میں مذاکرات ہوتےہیں ،دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ میں نے اس ایوان میں 40 سال گزارے ہیں، آپ مجھ سے جونیئر ہیں، آپ قانون پڑھے ہوئے ہیں لیکن میں قانون کا طالبعلم ہوں، عدالت قانون کے مطابق فیصلے دیتی ہے لیکن وہ قانون پارلیمنٹ سے ہم تیار کرکے بھیجتے ہیں، ہم قانون ساز ہیں، ہم آئین کو کھلواڑ نہیں بنانے دیں گے۔ میں مسودے پر بات چیت کے دوران کراچی گیا، 5 گھنٹے بلاول سے ملاقات ہوئی پھر لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی، پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیا، کسی ایک رکن کو بھی اندھیرے میں نہیں رکھا جس کے بعد اتفاق رائے سے بل منظور ہوا اور اب یہ کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف اور فلاں فلاں پاکستان کی مدد نہیں کریں گے، ناراض ہوجائیں گے، معاونت چھوڑ دیں گے۔ یہ راز تو آج ہم پر کھلا ہے کہ ہماری قانون سازیاں کیا ان کی ہدایات پر ہوں گی؟ اور ان کی رضامندی سے وابستہ ہوں گے؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم آزاد ملک نہیں ہیں؟ اگر آزاد نہیں ہیں تو کہہ دیا جائےکہ ہم واقعتاً غلام ہیں پھر ہم جانیں اور غلامی جانیں کہ کس طرح آپ پاکستان پر غلامی مسلط کرتے ہیں، یہ افسوسناک باتیں ہیں، اگر امریکا کے کانگریس میں کوئی رکن عمران خان کی رہائی یا پی ٹی آئی کے حق میں قرداد پیش کرتا ہے تو آپ یہاں قرار منظور کرتے ہیں کہ امریکا کو پاکستان کے معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔کیا پاکستان کے معاملات میں دخل دینے کا تعلق صرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے؟ کیا ہمارے آئین، پارلیمنٹ اور قانون کے ساتھ نہیں ہے؟ یہ تاویلیں ہم کیسے قبول کریں گے اور یہ کیسے دلیل بنیں گی کہ آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف ناراض ہوجائے گا۔
Discussion about this post