اینٹی نارکوٹکس کورٹ نے مقتول مصطفیٰ عامر کانام منشیات کیس سے خارج کردیا۔ تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ عامر کا انتقال ہوگیا ہے۔ مصطفیٰ عامرکو31جنوری 2024 کو گرفتارکیاگیاتھا۔ 20 مارچ 2024 کو مصطفیٰ عامر اورنعمان یعقوب کی ضمانت منظورہوگئی تھی۔ مصطفیٰ قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل6جنوری کوعدالت میں آخری بار پیش ہواتھا۔ قتل کیے جانے کے باوجود 22 فروری تک مصطفیٰ عامرکےعدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے، مصطفیٰ کے 2 ساتھی میاں عمار حمید اور فیصل یعقوب اشتہاری ہیں۔ ڈیفنس کا رہائشی نوجوان مصطفیٰ عامر رواں سال 6 جنوری کو لاپتہ ہوا تھا جس کے بعد اس کی والدہ کی مدعیت میں پہلے گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیاتھا، بعدازاں 25 جنوری کو تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد اغوا برائے تاوان اور لاش کی نشاندہی ہونے پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیاتھا۔ جمعرات کو کراچی کی سٹی کورٹ میں واقعے کے گواہ غلام مصطفیٰ نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مرکزم ملزم ارمغان قریشی کو بطور ملزم شناخت کرلیا تھا، بیان ریکارڈ کرانے کے دوران گواہ نے سنسنی خیز انکشافات کیے تھے۔ گواہ نے ملزم ارمغان کی شناخت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ بنگلے میں ’باس‘ رہتے تھے، اوپر والے فلور پر ملزم ارمغان رہتا ہے، ہمارا کھانا بھی باس آن لائن منگواتے تھے، ہم نیچے رہتے تھے، جب کام ہوتا تھا تو باس ہمیں بلاتے تھے، گھر کا گیٹ ریموٹ سے کھلتا تھا۔
گواہ کے مطابق ہمیں باہر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی، 6 جنوری کو رات 9 بجے ایک لڑکا آیا، بلیک ٹراؤزر میں جو اوپر چلاگیا۔ عدالت نے دریافت کیا کہ بلیک ٹراؤزر والا لڑکا دیکھنے میں کیسا تھا؟ جس پر گواہ نے بتایا وہ دبلا پتلا تھااور اوپر چلا گیا، پھر کچھ دیربعد گالم گلوچ کی آواز آئی، پھر کچھ دیر بعد فائرنگ کی آواز آئی۔ گواہ کے مطابق باس نے کیمرے میں دیکھ کر ہمیں اوپر بلایا، ہمیں کمرے میں رہنے کا کہا گیا اور کہا کہ ڈرو نہیں، تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور کہا کہ کپڑا اور شاور لیکر آؤ، میں اوپر چلا گیا، باس کے پاس ایک لڑکا چھوٹے قد کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ گواہ نے عدالت کے روبرو بیان میں کہا کہ ہم سے باس نے خون صاف کرایا، ایک لڑکا بلیک ٹراؤزر میں موجود تھا لال پھول والے، لیکن وہ لڑکا نہیں تھا جو آیا تھا، خون صاف کرکے رات ایک بجے ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ گواہ نے بتایا تھا کہ جب میں نے دیکھا رات ایک بجے جو لڑکا آیا تھا، اس کی گاڑی اور وہ نہیں تھا، تب میں اپنے کمرے میں جاکر سوگیا، نیند نہیں آرہی تھی، فجر کی نماز پڑھی، دن ایک ڈیڑھ بجے اٹھے تو کوئی زور سے گیٹ پیٹ رہا تھا ۔آوازیں دے رہا تھا ، جب ہم نے گیٹ کھولا تو باس اور اسکا دوست تھے، ہمیں کہا کہ گیٹ کیوں بند کیا ہم نے کہا ہم سمجھے آپ سو گئے ہیں۔
گواہ نے بتایا تھا کہ باس نے کہا کہ ٹھیک ہے جاکر آرام کرو کوئی مسئلہ نہیں، پھر باس نے اسی دن اوپر بلایا ہم دونوں کو بولتے ہیں کہ نشان صاف کرو مگر اس وقت ٹراؤزر جہاں رکھا تھا وہاں موجود نہیں تھا، باس نے ہمیں چھٹی دے دی، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی، پانی پینے یا کھانا کھانے کے لیے فون کرتے تھے۔ گواہ غلام مصطفیٰ نے بتایا تھا کہ کچھ دن بعد پولیس کا چھاپہ پڑا، اوپر سے فائرنگ ہورہی تھی ہم اپنے کمرے میں ہی تھے، ہم چھپ گئے تھے، کیوں کہ آمنے سامنے فائرنگ ہو رہی تھی، ہم چھپ کر باہر نکلے اور چلے گئے، ہم 10 تاریخ کو بنگلے کے آس پاس سامان اٹھانے آئے تو پولیس نے پکڑ لیا۔
Discussion about this post