پاک آرمی کے بلوچستان ہیلی کاپٹر حادثے کو کئی دن گزر گئے مگر ملک دشمن عناصر اس حادثے پر پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کا مقصد افواج پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے دو رخ ہیں، پہلا من گھڑت افواہوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ ہیلی کاپٹر گرایا گیا ہے اور دوسرا پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم جس سے شہدا، کے لواحقین اور پوری قوم کی دل آزاری اور تکلیف ہوئی۔
جھوٹ کیسے پھیلایا گیا اور سچ آخر ہے کیا
یکم اگست کی رات یہ خبر ہر پاکستانی کے لیے فکر کا باعث بنی کہ افواج پاکستان کا ہیلی کاپٹر بلوچستان میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں کے دوران لاپتا ہوگیا، ہیلی کاپٹر میں پاک آرمی کی 12 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفرازعلی سمیت تمام 6 افسر اوراہلکار شامل تھے جن کے لیے ریسکیو آپریشن ہوا ۔
اب اسی دوران افواہ سازوں اور ملک دشمنوں نے اپنا کام شروع کردیا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سوشل میڈیا کو ہتھیار بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں جعلی ویڈیوزعام کی گئیں، کہیں اور کی ویڈیو کو اس حادثے سے جوڑ دیا گیا۔ اور پھر عوام کا اپنی ہی فوج کے خلاف ورغلانے کے لیے مبالغہ اور قیاس آرائیوں پر پوسٹس کی بھرمار ہوگئی۔
دو اگست کو پوری قوم کو یہ بری خبر ملی کہ ہیلی کاپٹر میں سوار سبھی افسران شہید ہوگئے، رپورٹس کے مطابق ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے موسیٰ گوٹھ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر حادثے کا شکار ہوا۔ اب ذرا نوٹ کریں کہ حادثے کی جائے وقوعہ وہ دشوار ترین علاقہ ہے جہاں تک رسائی انتہائی دشوار اور مشکل ہے لیکن پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے کیسے عوام کو گمراہ اور بدگمان کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ انڈین اسپانسرڈ تحریک بلوچ ری پبلکن آرمی نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس نے ہیلی کاپٹر کو اینٹی ائیر کرافٹ گن سے اُس وقت نشانہ بنا کر گرایا ہے۔ جب وہ نچلی پرواز میں تھا۔
موسیٰ گوٹھ وہ علاقہ ہے جہاں بی آر اے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ لہذا پہلے ہی مرحلے میں یہ دعویٰ زمین بوس ہوگیا، پھر جہاں ہیلی کاپٹر حادثے کی زد میں آیا۔ وہاں گاڑی جا ہی نہیں سکتی اور یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے اینٹی ائر کرافٹ گن کو لانے لے جانے کے لیے گاڑی کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ اس شر انگیزی اور جھوٹی افواہ کو جس ٹوئٹر ہینڈل سے عام کیا گیا وہ واقعے کے اگلے دن بنایا گیا،انڈین میڈیا نے پاکستان کو بدنام اور کمزور کرنے کے لیے انہی جھوٹی افواہوں کا سہارہ لے کر تواتر کے ساتھ اسے نشر کرنا شروع کردیا۔
یہاں تک کہ حادثے میں شہید ہونے والے فوج افسران اور افواج پاکستان کے خلاف بھی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ جبھی آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل بابرافتخار کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد لواحقین ایک کرب سے گزر رہے تھے لیکن حادثے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا شروع کردیا گیا، جس کے باعث بہت دل آزاری ہوئی، شہداء کے لواحقین کو اس سے بہت دکھ ہوا۔
خبریں تو یہ بھی گردش رہیں کہ حادثے کے بعد ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے باقاعدہ طور پر فوج کے خلاف زہر اگلا گیا، کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ صدر عارف علوی کو اسی بنا پر نمازجنازے میں شرکت سے دور رکھا گیا۔ جس پر انہیں اب باقاعدہ پیغام دینا پڑا کہ فوج اور حادثے کے خلاف نفرت انگیز ٹوئٹس کی مذمت کرتے ہیں، ان کا مزید کہناتھا کہ شہدا کے جنازے میں اُن شرکت نہ کرنے سے غیر ضروری تنازع کھڑا کیا گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ غم زدہ لواحقین کو اس بات کا دکھ ہے کہ کیسے منصوبہ بندی کے تحت اس ہیلی کاپٹر حادثے پرکیسے منفی رنگ دیا گیا۔
دوسری جانب ایک اور فیک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس ہیلی کاپٹر کو یو ایس ڈرون نے نشانہ بنایا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ شرپسندوں نے دونوں واقعات کو ایک ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی ۔ اور یہاں تک جھوٹا دعویٰ کی اکہ افغانستان میں ڈرون حملے میں پاکستان نے سہولت کاری کی جبکہ تحقیقات میں یہی بات سامنے آئی کہ القاعدہ کے ایمن الظواہری پر ہونے والا ڈرون حملہ قازغستان ائیر بیس سے کیا گیا جس سے پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی سیاست قیادت اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیتی لیکن وہ اس وقت خود آپس میں الجھی ہوئی ہے ۔ اقتدار پر قابض ہونے کی جنگ جاری ہے ۔ ایک دوسرے پر الزاموں کی بونچھاڑ کی جارہی ہے ۔
اور یہی وجہ ہے دشمن ممالک اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ملکی سلامتی اور دفاع کو بہترین اور مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام اس قسم کے پروپیگنڈے سے دور رہے، ان کو آگے بڑھانے سے پہلے تصدیق کرلی جائے کہ ان میں کتنی سچائی ہے کیونکہ بے بنیاد ، مفرضوں ار جھوٹی افوہیں پھیلا کر دشمن یہی چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے اُن محافظوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں جو ہر مشکل اور دشوار صورتحال میں ملکی دفاعی، سالمیت اور مضبوطی کے لیے ہر دم چاک و چوبند رہتے ہیں۔
Discussion about this post