پاکستان کا ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی 2022 کے فائنل تک رسائی حاصل کرنا یقیناً ایک بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے، پاکستانی امید کر رہے تھے 1992 کی تاریخ دہرائی جائے گی اور پاکستان ورلڈ کپ اپنے نام کر لے گا لیکن انگلینڈ نے پاکستان کا خواب چکنا چور کر کے ثابت کیا کہ وہ پاکستان سے بہتر ٹیم ہے۔ فائنل میں پاکستانی بیٹرز ایک بار پھر ناکام ہوئے لیکن بالرز کو داد دینی پڑتی ہے کہ ایک چھوٹے مجموعے کا دفاع کرنے کی بھی پاکستانی باؤلرز نے سرتوڑ کوشش کی اور میچ کو یک طرفہ نہیں ہونے دیا، پاکستانی با لرز نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ دنیا کا سب سے خطرناک بالنگ اٹیک ہے۔ اگر شاہین آفریدی فیصلہ کن مراحل میں زخمی نہ ہو جاتے تو شاید میچ مزید دلچسپ ہو جاتا۔
پاکستان کرکٹ کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کے اُس کے پاس ہمیشہ سے ہی میچ ونر بالرز رہے ہیں، چاہے ابتدائی زمانے کے ہالی ووڈ کے ہیرو کی طرح لگنے والے فضل محمود ہوں، ستر کی دہائی کے سرفراز نواز یا بین الاقوامی شہرت سمیٹنے والے عمران خان۔ لیکن 90 کی دہائی مکمل طور پر وسیم اکرم اور وقار یونس کے نام رہی جن کی تیز اور لہراتی ہوئی گیندوں نے پاکستان کو کئی مرتبہ فتح دلوائی۔ 92 کے ورلڈ کپ کا سہرا بھی یقنناً وسیم اکرم کے سر جاتا ہے جن کی تباہ کن بالنگ نے فائنل میں انگلینڈ بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا دیے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے 20تیس سال سے پاکستان بڑے بیٹرز کیوں نہیں پیدا کررہا ؟ ایسے بیٹرز جن سے مخالف ٹیمیں گھبرائیں۔ کافی عرصے کے بعد رضوان اور بابر اعظم کی صورت میں ایک اچھی اوپنگ جوڑی ملی، تبصرہ نگار اور پرستاروں نے بابر اعظم کو بابر کنگ اور دنیا کے عظیم بیٹرز کا لقب دے ڈالا۔ لیکن معذرت کے ساتھ بابر کو ابھی اپنی عظمت ثابت کرنی ہے۔ بابر کا تقابل ویرات کوہلی سے کیا جاتا ہے لیکن تجزیہ کیا جائے تو بابر کی شاید کوئی ایک اننگ بھی کوہلی کی میچ وننگ اننگ سے مقابلہ نہ کر سکے۔
اس ورلڈ کپ کے گروپ میچ میں جس طرح کوہلی نے پاکستان کی ورلڈ کلاس بالنگ کے پرخچے اڑائے اور پاکستان کی یقینی فتح کو جس طرح شکست میں بدلا اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ عظیم بیٹر وہ ہوتا ہے جو ہر قسم کی پچز اور ہر قسم کی کنڈیشنز میں کارکردگی دکھائے۔ تاریخی طور پر پاکستانی بیٹرز آسٹریلوی کنڈیشنز میں ہمیشہ ہی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں بھی جہاں بیٹرز کے لیے پچ سازگار تھی، وہاں پاکستان نے رنز بنائے اور پرتھ اور ملیبورن کی پچ ، جہاں بیٹرز کو صحیح معنوں میں اپنے ہنر آزمانے ہوتے ہیں پاکستانی بلے باز ناکام ہوئے اور ان میں سرفہرست نام بابر اعظم کا تھا۔ بیٹنگ وکٹ پر پہلے نمبر پر آ کر اپنے آپ کو حالات کے حساب سے ڈھال کر بغیر کسی دباؤ کے اسکور کرنا آسان ہوتا ہے۔ بہ نسبت کوہلی کی طرح کم وقت اور مشکل حالات میں رنز کرنا اور ٹیم کو میچ جتانا۔ آپ بابر کا ریکارڈ اٹھا لیں ، بابر کی شاید ہی کوئی ایسی اننگ نظر آئے جیسی کوہلی کی میچ وننگ انگ ہیں یا جو اننگ انہوں نے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلی۔ پاکستانی بیٹرز گلی محلوں کے کھلاڑیوں کی طرح آف اسٹمپ کی گیندوں کو بھی لیگ پر اٹھا کر کھیلنے کی کوشش میں آوٹ ہوتے ہیں۔
رضوان کے بارے میں ہر ایک کو پتا چل چکا ہے کہ ان سے آف اسٹمپ پر شاٹ نہیں لگتا، ان کو پھنسانے کے لیے بالرز آف اسٹمپ پر بال کراتے ہیں اور ورلڈ کپ کے تمام میچز میں وہ اسی طرح آوٹ ہوتے رہے۔ اگر یہ کہہ جائے کہ پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ آسٹریلوی کنڈیشنز میں کلب کرکٹ کی طرح پرفارم کرتی رہی تو غلط نہ ہوگا۔ راقم نے بگ بیش کے کئی میچز ملیبورن کرکٹ گراونڈ میں دیکھے ہیں اور پچ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ورلڈ کپ میں تھی لیکن بگ بیش لیگ میں بھی بیٹرز کی کارکردگی پاکستانی ٹیم کے بیٹرز سے بہت بہتر ہوتی ہے۔
ہم حقائق کا تجزیہ کیے بغیر تنقید تو کرتے ہیں کہ آئی سی سی کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے، بھارتی کرکٹ کی زیادہ ترویج کی جاتی ہے لیکن اس فائنل میں مجھ سمیت ہر وہ پاکستانی جس نے فائنل میچ ملیبورن کرکٹ گراؤنڈ میں جا کر دیکھا گواہی دے گا کہ پاکستان کے لیے کس طرح انتظامات کیے گئے تھے۔90 ہزار کے اسٹیڈیم میں جب 70 ہزار پاکستانی ہوں گے تو آؤ بھگت پاکستانیوں کی ہوگی لیکن اگر پاکستان کے بیٹرز، کلب کرکٹر کی طرح پرفارم کریں گے اور مجھ جیسے ہزاروں تماشائیوں کو مایوس کریں گے جنہوں نے میچ کی تیاری کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کیے تو بین الاقوامی طور پر بھی اسی ٹیم کو پذیرائی ملے گی جو چمپئن بنے گی۔ بابر اعظم اگر ورلڈ کپ کے فائنل میں عادل رشید کی عام سی گوگلی کو نہ سمجھ سکیں اور اپنی وکٹ گنوا دیں تو کم از کم میں تو بابر کو بابر کنگ یا دنیا کا عظیم بیٹر ماننے کے لیے تیار نہیں۔
Discussion about this post