جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ پرویز الہیٰ کے وکیل کا موقف تھا کہ اُنہیں ابھی تک ریٹرننگ افسر کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا، اعتراض تھا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کے لیے الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے، پرویز الہٰی 5 حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ جس پر جسٹس اطہر من نے دریافت کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ 5 حلقوں کے لیے 5 اکاؤنٹس کھولے جائیں؟ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے بعد اکاؤنٹس کو دیکھا جاتا ہے۔ وکیل فیصل صدیقی کے مطابق ایک اعتراض یہلگایا گیا گیا کہ پنجاب میں 10 مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی گئی، اعتراض کیا گیا کہ 20 نومبر 2023 کو 10 مرلہ پلاٹ خریدا گیا، مؤکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جائیدادیں پوچھنے کا مقصد جیتنے سے پہلے اور بعد کے اثاثے دیکھنا ہوتا ہے، آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی پر جو اعتراض لگایا گیا اس کا تو بعد میں بھی ازالہ ممکن ہے۔ دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب و پی ٹی آئی رہنما چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کےخلاف اپیل پر دوبارہ سماعت کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پی پی32 گجرات کی حد تک پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے۔
Discussion about this post