پشاور میں پیر کو پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں اموات کی تعداد 93 تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ملبے تلے افراد کو باہر نکالنے کے لیے امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ ریسیکو حکام کے مطابق بھاری مشینری کا استعمال کرکے ان افراد کو نکالا جارہا ہے جبکہ پاک فوج کے دستے بھی اس کارروائی میں شریک ہیں۔ سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کے مطابق بظاہر دھماکہ خود کش لگتا ہے اور مبینہ حملہ آور کا سر بھی ملبے کے نیچے سے مل گیا ہےبہرحال مزید تحقیقات کی جارہی ہیں تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی۔ سی سی پی او پشاور نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں تھا اور ساتھ ہی یہ بھی امکان ہے کہ وہ کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز تک پہنچا۔ پولیس حکام فی الحال سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے کر اس واقعے کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔
اس دھماکے کے بعد شبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی پر گیا جس نے نومبر 2022کے آخر میں حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور پاکستان بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گروپ کے کمانڈر سربکف مہمند نے ٹوئٹ کے ذریعے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن 10 گھنٹے سے زیادہ کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔
Discussion about this post