پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کا ڈرائیور جو چند دن پہلے پورے واقعے کو بیان کررہا تھا لیکن اب منظر سے ہی غائب ہے، اسلام آباد پولیس سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ ڈرائیور کو ڈھونڈ کر نکالا جائے، اسی لیے جمعرات کو اس کے گھر پر چھاپہ بھی مارا۔ جہاں اظہار کی بیوی اور سالے نے پولیس پر حملہ کردیا۔
پولیس نے تلاشی کے بعد پوچھ گچھ کے لیے انہیں تھانہ لائی تو سوشل میڈیا پر اس سارے واقعے کو غلط رخ دے کر پیش کردیا گیا، تاثر یہی دیا گیا کہ پولیس نے بیوی اور اظہار کے سالے پر تشدد کیا۔ پھر سوشل میڈیا پر تین سال پرانی سندھ کی جیلوں کی ایک تصویر یہ کہہ کر وائرل کردی گئی کہ یہ اظہار کی بیوی سائرہ کی تصویر ہے جو سلاخوں کے پیچھے بے بسی اور لاچارگی کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔
تصویر کے وائرل ہونے کے گھنٹوں بعد اسلام آباد پولیس کو بتانا پڑا کہ یہ جعلی تصویر ہے جبکہ سوشل میڈیا پر تو یہ پروپیگنڈابھی کیا گیا کہ پولیس نے 10 ماہ تک کی بچی کو بھی گرفتار کرلیا ہے، پولیس اور حکومت کو ظلم اور بے رحم بنا کر پیش کیے جانے لگا، پولیس کے کردار اور سلوک پر سوال اٹھنے لگے انتشار پھیلانے والوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور موجودہ حکومت کا سنگدلانہ اور سفاکانہ قدم قرار دیا۔
بچی کی رہائی کے ہیش ٹیگز گردش کرنے لگے ، کسی نے مریم نواز پر تو کسی نے بلاول پر تنقید کے نشتر برسائے، ان کی رشتے دار بچوں کے ساتھ تصاویر کو لے کر گولہ باری ہوئی۔ یہاں تک کہ عمران خان نے بھی اس بے رحمانہ عمل قرار دیا۔
بدقسمتی سے یہاں ایک بار پھر اسلام آباد پولیس نے روایتی سستی اور غیرمعمولی لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ جب تک یہ افواہ جنگل کی آگ تک پھیل چکی تھی ۔ خاصی تاخیر کے بعد اسلام آباد پولیس نے صرف ٹوئٹس کے ذریعے وضاحت دی کہ بچی یا اس کی والدہ پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔
اس سارے معاملے پر اسلام آباد پولیس باقاعدہ پریس کانفرنس کرتی تاکہ اصل حقیقت عوام تک لائی جاتی، پولیس کا جو امیج خراب کیا جارہا تھا اسے بہتر بناتی لیکن یہاں غیر ضروری ٹال مٹول اور لاپرواہی نے معاملے کو اور زیادہ مشکوک بنادیا۔
حکومت اس سارے معاملے میں خود شش و پنج کا شکار ہے۔ صورتحال کو اب کس طرح ہینڈل کرنا ہے خود حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ مریم نواز نے رات گئے یہ ضرورکہا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ نون کی نائب صدر نے اسلام آباد پولیس سے معلومات لیے بغیر یہ بھی لکھا کہ بچی کی ماں کو بھی رہا کردینا چاہیے۔ اس سلسلے میں رانا ثنا اللہ سے بات کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب انہیں سارے معاملے کی مکمل معلومات نہیں تھی تو ٹوئٹ کرنے سے پہلے وہ یہ کام کرلیتیں۔ سوال یہ ہے کہ پولیس نے جب شہباز گل کو گرفتار کیا تو اس وقت اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھا کہ ان کا سیل فون بھی قبضے میں لیا جائے اور اب اس کے حصول کے لیے کیوں سر دھڑ کی بازی لگائی جارہی ہے ۔
اورآخر گرفتاری سے پہلے کیوں اس ساری کارروائی کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ پولیس نے انتہائی عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ کرکے اس سارے معاملے کو کسی اور رخ پر ڈال دیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ شہاز گل نے آج کورٹ میں یہی بیان دیا کہ انہوں نے اے آر وائے نیوز کو متنازعہ بیپر سیل فون سے نہیں بلکہ لینڈ لائن سے دیا تھا۔
تو یہاں سوال یہ بھی ہے اگر ایسا تھا تو اب ان کا سیل فون کہاں ہے؟ کہیں اس میں اس بات کے ثبوت تو نہیں کہ جب شہباز گل نے بیپر دیا تھا تو اس کی کس طرح منصوبہ بندی کی گئی تھیی، شہباز گِل نے پولیس کو بتایا تھا کہ اُن کے بیپر کا مکمل ٹرانسکرپٹ موبائل پر موجود ہے، اسی وجہ سے سیل فون کو چھپایا جارہا ہے جو عین ممکن ہے کہ ڈرائیور کے پاس ہے۔
Discussion about this post