وزیراعلیٰ کی کرسی پر پرویز الہیٰ تو بیٹھ گئے اور اب پنجاب کے انتظامی امور کی گاڑی بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے ۔ سبطین خان کا نام بطور اسپیکر پنجاب اسمبلی سامنے آیا ہے لیکن پرویز الہیٰ کے وزیراعلیٰ بننے سے حمزہ شہباز ہی نہیں حکمراں اتحادی جماعتیں بھی سخت غصے میں ہیں لیکن ان کے علاوہ تحریک انصاف میں سے بھی ہے کوئی ہے جسے پنجاب کی موجودہ انتظامی صورتحال پسند نہیں آئی۔
جس نے بڑی، چاہ ، امید اور آس کے ساتھ ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور توقع تھی کہ پارٹی نظر انداز نہیں کرے گی لیکن ہوتا وہی آیا جو پہلے بھی ہوا ہے، ذہن پر زور مت ڈالیں یہ کوئی اور نہیں مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں اور ان کے بیٹے زین قریشی ہیں، تحریک انصاف کے سینئر ترین رہنما شاہ محمود قریشی، ایک بار پھر مایویسی کے گھپ اندھیرے میں گم ہوگئے۔
صاحبزادے زین قریشی این اے دو ستاون سے رکن قومی اسمبلی تھے لیکن والد شاہ محمود قریشی نے پنجاب کی سیاست کے اکھاڑے میں اتارا، ضمنی الیکشن میں ملتان کی نشست پی پی 217 سے لڑے ۔اب ذرا تصور کریں کہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر وہ صوبائی نشست پر لڑ رہے تھے تو کوئی نہ کوئی تو خاص مقصد ہوگا۔
ظاہری بات ہے وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ وہ سپنا جو والد بھی دیکھتے آئے ہیں کیونکہ والد شاہ محمود قریشی تو جلسے میں کہہ چکے تھے کہ انہیں 2018 میں جان بوجھ کر اپنی ہی پارٹی نے ہرایا تاکہ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوجائیں۔
شاہ محمدد قریشی نے جہانگیر ترین کا نام لیے بتادیا کہ کس نے انہیں وزارت اعلیٰ سے دور رکھا۔ اب ایسی صورتحال میں زین قریشی ہی ان کے خوابوں کی امنگیں ثابت ہوئے۔ جن کی انتخابی مہم کو شاہ محمود قریشی نے دل و جان سے چلایا ۔ ظاہری بات جو عہدہ وہ حاصل نہ کرسکے خواہش ہوتی کہ بیٹے کو ملے لیکن شاہ محمود قریشی کو اس وقت سب سے بڑا دھچکا لگا جب پارٹی نے صرف 10 نشستوں والے قاف لیگ کے رہنما پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ کے طور پر کھڑا کیا۔
اس فیصلے سے یقینی طور پر شاہ محمود قریشی ہی نہیں زین قریشی کے ارمان بھی چکنا چور ہوئے ہوں گے لیکن ایک امید یہ تھی کہ ممکن ان کا نام اسپیکر کے لیےسامنے آئے لیکن یہاں اس وقت مایوسی ہوئی جب سبطین خان کے نام کا اعلان ہوا، یعنی شاہ محمود قریشی اور بیٹے زین قریشی کے ہاتھ اب تک کچھ نہیں آیا۔
یاد رہے کہ زین اور شاہ محمود قریشی کو اس لیے بھی بلند توقعات تھیں کیونکہ انہوں نے نون لیگ کے امیدوار سلیمان نعیم کو ٹف مقابلے کے بعد ہرایا تھا ۔ اور کہا یہی جارہا تھا کہ زین مشکل سے یہ نشست جیت پائیں لیکن اس کے باوجود وہ 47349 ووٹ لے کر سرخرو رہے ۔
زین قریشی والد شاہ محمود قریشی اور سابق گورنر اور دادا مخدوم سجاد حسین قریشی کی سیاسی میراث کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں لیکن اب تک جو تحریک انصاف انہیں نظر انداز کررہی ہے ۔ وہ ان کے ہی نہیں شاہ محممود قریشی کے ارمانوں اور تمناؤں کو ٹھیس پہنچا رہا ہے۔
کیا زین والد شاہ محمود قریشی کی طرح ان لکی ہیں یا انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ سوال اس لیے کیے جارہے ہیں جب شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی میں شامل تھے تو توقع کی جارہی تھی کہ وہ وزیراعظم بنیں گے لیکن قرعہ فال ملتان کے ہی یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا ۔
پھر جب انہیں سپریم کورٹ کے حکم سے ہٹایا گیا تو ایک بار پھر شاہ محمود قریشی کے دل میں وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی خواہش مچلنے لگی لیکن یہاں پھر راجا پرویز بازی لے گئے بلاول بھٹو زرداری تو شاہ محمود قریشی پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم بننے کے لیے انٹرنیشنل لیول پر لابنگ کرتے رہے ہیں۔ اور ان سے عمران خان بچیں۔
تحریک انصاف میں آئے تو چاہتے تھے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اب کچھ ایسی ہی داستان بیٹے زین قریشی کے ساتھ چل رہی ہے ۔ جنہیں قومی اسمبلی سے اٹھاکر وہ صوبائی اسمبلی کے لیے کچھ خاص مقصد اور مشن کے تحت لایا گیا لیکن شاہ محمود قریشی کی طرح زین قریشی فی الحال خالی ہاتھ ہی ہیں۔
Discussion about this post