اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے 10 ارکان علی محمد خان ، فضل محمد خان ، شوکت علی ، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر شاندانہ گلزار، فخر زمان خان ، فرخ حبیب، اعجاز شاہ ، جمیل احمد اور محمد اکرم نے درخواست جمع کرائی تھی۔ ان ارکان کا موقف ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے آئینی طریقے کے بغیر استعفے منظورکیے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل علی ظفر کے مطابق شق 64 کے تحت اس عمل کو مکمل نہیں کیا گیا۔ جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ کیا یہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہے ؟ کیا پارٹی نے کیوں ایکشن لیا؟ اس درخواست کا مقصد کیا ہے؟ پہلے درخواست گزار اپنی نیک نیتی تو ثابت کریں۔ پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی تنازعات دور کرنے کے لیے جگہ پارلیمنٹ ہے۔مسائل کو حل کرنے کے لیے فریقین سے مکالمہ کریں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا مستعفی ارکان واقعی ایوان میں جاکر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔اس مقدمے میں تو درخواست گزار کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جینوئن استعفے جمع کروائے ۔ یہ اسپیکر کے پاس واپس جانے کا نہیں بلکہ صرف ٹیکنیکل ایشو ہے ۔ چیف جسٹس کے مطابق جب درخواست گزار پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے تو کرنا کیا چاہتے ہیں۔ عدالت کسی بھی صورت پارلیمنٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بار ایوان میں جائیں اور پھر درخواست لے کر آئیں پھر سنیں گے۔
Discussion about this post