یہ معاملہ 23 نومبر 2020 سے شروع ہوا۔ جب میں نے ایک درخواست بھیجی سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کو، جس میں استدعا کی گئی کہ مجھے توشہ خانہ کے معاملے میں رسائی دی جائے۔ حکومت پاکستان کے ادارے پابند ہیں کہ وہ 10 دن کے اندر یہ معلومات دیں لیکن ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ جس کے بعد میں پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کے لیے گیا تو اس کا فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس دوران میں درخواستیں دیتا رہا۔ تین دفعہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کو باقاعدہ خط لکھا مگر اس پر پھر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔جس کے بعد میں نے مئی 2021میں پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اس کے فیصلے کی توہین کی درخواست دی۔
جس کے بعد جولائی 2021 کو سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کو شوکاز نوٹس جاری ہوا اور باقاعدہ سماعت بھی ہوئی۔ سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کو سزا ملنے والی تھی تو اُس وقت کی پی ٹی آئی حکومت اٹارنی جنرل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پیٹشن لے کر گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب یہ معاملہ گیا تو ذرائع ابلاغ نے خاص توجہ دی۔ اس دوران مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن نے کال کرکے یہ پیش کش بھی کی کہ یہ معاملہ رفع دفع کردیں تو میرے لیے کچھ بہترسوچیں گے۔ یہاں تک کہا گیا کہ یہ درخواست واپس لے لیں۔ جب میں نے انکار کردیا تو اس کے بعد دھمکیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
میری 70 سال کی والدہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہہ گیا کہ آپ کے گھر میں لاش آئے گی۔ جب میں سوات دوستوں کے ساتھ گیا تو وہاں پر تحریک انصاف کے لوگوں نے باقاعدہ حملہ کرکے زخمی کردیا۔ ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو یہ ہونے نہیں دیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے 2 جگہ سے میری نوکری سے مجھے محروم کرایا ۔ فواد چوہدری جو وفاقی وزیر اطلاعات تھے، وہ فون کرکے مجھے ملازمت سے نکلواتے رہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک چینل پر میری ملازمت کا تیسرا دن تھا جب سی ای او نے بلا کر کہا کہ وہ مجبور ہیں اسی لیے مجھے نوکری سے نکال رہے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج تک مجھے میری مطلوبہ معلومات نہیں دی گئی۔ میرے پاس تصدیق شدہ معلومات تھی کہ عمران خان نے توشہ خانے کے تحائف میں گڑ بڑ کی ہے ۔
( صحافی رانا ابرار کی ” آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ ” میں گفتگو )
Discussion about this post